بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے منعقد ہونے کے لیے مجلس کا ایک ہونا ضروری ہے


سوال

اگر نکاح خواں موبائل پر نکاح پڑھائے تو کیا نکاح درست ہے؟

جیسے کہ لڑکا اور لڑکی ایک جگہ موجود ہوں اور جو مولوی صاحب نکاح پڑھائیں گے وہ کسی اور جگہ ہیں، تو فون پر نکاح پڑھانا چا ہیں، تو کیا اس صورت میں نکاح درست ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  شرعاً نکاح صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس کا ایک ہونا  اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا  خود موجود ہونا  یا ان کے وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے،  نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے،صورتِ مسئولہ میں    لڑکا، لڑکی اور شرعی گواہ سب ایک مجلس میں ہوں اور لڑکا لڑکی خود ایجاب و قبول کریں یانکاح خواں  ایجاب وقبول کے الفاظ فون پر دھرالے اور اسے سن کر لڑکااور لڑکی اپنی زبان سے ادا کریں  اور اسی مجلس میں موجود گواھان لڑکا اور لڑکی کے ایجاب وقبول کے الفاظ کو   سن لیں،تو نکاح  منعقدہو جائے گا،لیکن اگر  ایجاب و قبول کرنے والے اور گواہان مجلسِ  نکاح میں  موجود نہ ہوں، اور نکاح خواں  موبائل پر نکاح پڑھادےتو اس سے شرعی نکاح منعقد نہیں ہوگا،نکاح خواں  کی آواز موبائل سے سننے سے شرعًا نکاح  منعقد نہیں ہوگا۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"وقال الترمذي: وقد قال بعض أهل العلم: ‌إن ‌النكاح ‌جائز ‌بغير ‌خطبة، وهو قول سفيان الثورى وغيره من أهل العلم. قلت: وأوجبها أهل الظاهر فرضا واحتجوا بأنه صلى الله عليه وسلم خطب عند تزوج فاطمة، رضي الله تعالى عنها، وأفعاله على الوجوب، واستدل الفقهاء على عدم وجوبها بقوله في حديث سهل بن سعد: قد زوجتها بما معك من القرآن، ولم يخطب ثم إنه خرج الحديث المذكور عن قبيصة بن عقبة عن سفيان الثوري، ويروي عن سفيان بن عيينة ولا قدح بهذا لأنهما بشرط البخاري."

(باب الخطبة،ج:2،ص:134،ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر.

(قوله: من أحدهما) أشار إلى أن المتقدم من كلام العاقدين إيجاب سواء كان المتقدم كلام الزوج، أو كلام الزوجة والمتأخر قبول ح عن المنح."

(كتاب النكاح، ج: 3، ص: 9، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً".

(کتاب النکاح، ج:3، ص:14، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"(و) شرط (حضور) شاهدين  (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)ــ على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة."

  (کتاب النکاح،ج3،ص21۔23،ط:سعید)

"مجمع الأنهر" میں ہے:

"(و) شرط أيضا (حضور) شاهدين."

(كتاب النكاح، شروط صحة النكاح، ج:1، ص:320، ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت)

"اللباب فی شرح الکتاب"میں ہے:

"(ولا ينعقد نكاح المسلمين) بصيغة المثنى (إلا بحضور شاهدين حرين بالغين عاقلين مسلمين) سامعين معا قولهما فاهمين كلامهما على المذهب كما في البحر."

(کتاب النکاح ج:3، ص:3، ط: المکتبة العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولاينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان......(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى."

(کتاب النکاح،الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه،ج:1،ص:269/267،ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلايخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة".

(کتاب النکاح،فصل رکن النکاح،ج:2،ص:231،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں