بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے موقع پر مسجد میں چھوارے تقسیم کرنا یا اچھالنا


سوال

کیا مسجد میں نکاح پڑھانے کے بعد چھوارے تقسیم کرنا سنت ہے؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسے موقع پر مسجد میں چھوارے اُچھالنا سنت ہے نا کہ صرف تقسیم کرنا؟

جواب

         واضح رہے کہ  نکاح کے موقع پر  اگر باہم تنازع کا اندیشہ نہ ہو تو  چھوہارے یا کوئی  خشک مٹھائی  تقسیم کرنا  یا ان کو لٹانا  دونوں درست اور مباح ہیں،  اگر نکاح کا عقد  مسجد میں ہو تو پھر ترتیب سے تقسیم کردیا جائے  تاکہ ایک مباح کام  کی وجہ سے مسجد کی  بے ادبی کا گناہ نہ ہو۔

 المبسوط للسرخسي میں ہے:

وقال أبو حنيفة: لا بأس بنثر السكر والجوز اللوز في العرس والختان وأخذ ذلك إذا أذن لك أهله فيه، وإنما يكره من ذلك أن يأخذ بغير إذن أهله وبه نأخذ .

(30 / 167،  آخر کتاب  اختلاف  ابی حنیفۃ وابن ابی لیلیٰ، ط؛ دارالمعرفۃ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

لا بأس بنثر السكر والدراهم في الضيافة وعقد النكاح، كذا في السراجية.

(5 / 345، الباب الثالث عشر في النهبة ونثر الدراهم والسكر وما رمى به صاحبه، کتاب الکراہیۃ، ط؛ رشیدیہ)

       مندرجہ بالا عبارات سے اس عمل کا مباح  ہونا معلوم  ہوتا ہے، جیساکہ”لابأس“لفظ اس پر دلالت کرتا ہے،  باقی جن روایات میں  عقدِ نکاح کے موقع پر  چھوہارے لٹانے کا ذکر ہے وہ انتہائی ضعیف ہیں، ان روایات سے اس  عمل کے سنت ہونے پر استدلال  کرنا درست نہیں ہے،  امام بیہقی ؒ  فرماتے ہیں کہ  چھوہارے لٹانے سے  متعلق  جو روایات  منقول ہیں وہ سب ضعیف ہیں ۔

 السنن الكبرى  میں ہے:

وقد روي في الرخصة، فيه أحاديث كلها ضعيفة.

(7، 287،  باب ما جاء فی النثار فی الفرح، ط؛ نشر السنۃ ملتان)

 وفیہ ایضا:

 أخبرنا أبو سعد الماليني، أنا أبو أحمد بن عدي، نا محمد بن عثمان وراق عبدان نا عمرو بن سعيد الزعفراني، نا الحسن بن عمرو، نا القاسم بن عطية، عن منصور بن صفية، عن أمه، عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " تزوج بعض نسائه فنثر عليه التمر " الحسن بن عمرو وهو ابن سيف العبدي بصري عنده غرائب.

(السنن الكبرى للبيهقي، 7/287، باب ما جاء فی النثار فی الفرح، ط؛ نشر السنۃ ملتان)

 وفیہ ایضا:

أخبرنا أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين السلمي أنا عبد الله بن محمد بن موسى بن كعب، أنا محمد بن غالب، نا زكريا بن يحيى، نا عاصم بن سليمان، نا هشام بن عروة، عن أمه، عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا زوج أو تزوج نثر تمرا " عاصم بن سليمان بصري رماه عمرو بن علي بالكذب ونسبه إلى وضع الحديث .

(7/287، 288، باب ما جاء فی النثار فی الفرح، ط؛ نشر السنۃ ملتان)

 لسان الميزان میں ہے:

"عاصم" بن سليمان أبو شعيب التميمي الكوزى1 البصري وكوز قبيلة روى عن هشام بن عروة وجماعة قال ابن عدي يعد ممن يضع الحديث وقال الفلاس كان يضع الحديث ما رأيت مثله قط سمعته يحدث عن هشام عن محمد عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا "شرب الماء على الريق يعقد الشحم" فقال له رجل الرجل يبزق في الدواة ثم يكتب منها فقال حدثنا سعيد عن قتادة عن أبي سنان الأعرج عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان يبزق في الدواة ثم يكتب منها فقال له فابن عباس كان أعمى قال كان لا يرى به بأسا وحدثنا عبد الله عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه كرهه وقال النسائي متروك وقال الدارقطني كذاب وقال ابن حبان لا يجوز كتب حديثه إلا تعجبا عاصم بن سليمان الكوزى بإسناد والمتهم به عاصم .

(3/218، حرف العین المھملہ، ط؛ ادارۃ تالیفات اشرفیہ)

 السنن الكبرى  میں ہے:

 أخبرنا أبو القاسم إسماعيل بن إبراهيم بن علي بن عروة البندار ببغداد نا أبو سهل بن زياد القطان، نا أبو الفضل صالح بن محمد الرازي حدثني عصمة بن سليمان الجرار، نا لمازة بن المغيرة، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: " شهد النبي صلى الله عليه وسلم أملاك رجل من أصحابه فقال: " على الألفة والطير المأمون والسعة في الرزق بارك الله لكم دففوا على رأسه " , قال: فجيء بالدف وجيء بأطباق عليه فاكهة وسكر فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " انتهبوا "، فقال: يا رسول الله أولم تنهنا عن النهبة؟ قال: " إنما نهيتكم عن نهبة العساكر أما العرسات فلا " قال: فجاذبهم النبي صلى الله عليه وسلم وجاذبوه " في إسناده مجاهيل وانقطاع وقد روي بإسناد آخر مجهول عن عروة عن عائشة رضي الله عنها عن معاذ بن جبل ولا يثبت في هذا الباب شيء والله أعلم.

(7/287، 288، باب ما جاء فی النثار فی الفرح، ط؛ نشر السنۃ ملتان)

          خلاصہ  یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد کا احترام  اور تقدس کا لحاظ کرتے ہوئے  نکاح کے موقع پر چھوہارے لٹاتا ہے تو یہ جائز اور مباح ہے، البتہ اس عمل کو سنت نہ سمجھا جائے، اور  اگر لوگ اس عمل کو سنت سمجھتے ہوں اور اس سے مسجد کا احترام وتقدس بھی پامال ہوتا ہو  تو پھر اس عمل سے اجتناب ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں