بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے اعادہ کے وقت مہر میں اضافہ کرنا


سوال

ایک ہی عورت سے اگر دوسری مرتبہ نکاح ہوتوکیا دوسرے نکاح میں مہر کی مقدار بڑھانا جائز ہے یا نہیں؟  مثلاً ایک منگنی کے وقت ہوا اور دوسرا رخصتی کے وقت؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر منگنی کے وقت  نکاح کا عقد  ہوا ہو  اور اس میں مہر میں مقرر ہوا ہو اور اس کے بعد رخصتی کے وقت دوبارہ عقدِ  نکاح کو دہرایا گیا ہو اور اس میں  سابقہ  مہر میں اضافہ کیا گیا ہو یا نیا مہر مقرر کیا گیا ہو اور  شوہر کا مقصد اس  نئے مہر سے  ، پرانے مہر  میں اضافہ کرنا مقصود  ہو  تو دونوں صورتوں میں یہ مہر میں اضافہ شمار ہوگا، اور شوہر کے ذمے  اس کی ادائیگی لازم ہوگی، نیز  نکاح کے بعد بھی اگر شوہر مہر میں اضافہ کردے تو یہ بھی جائز ہے۔ 

واضح رہے کہ بعض علاقوں میں منگنی کے وقت  ظاہرًا  نکاح کردیا جاتاہے، لیکن اس سے مقصود باقاعدہ نکاح نہیں ہوتا، بلکہ وہ منگنی کی ہی مجلس سمجھتی جاتی ہے، اس کے بعد باقاعدہ طور پر نکاح کی مجلس میں نکاح کیا جاتاہے، ایسے علاقوں یا خاندانوں میں منگنی کے موقع پر ہونے والا نکاح   شرعًا نکاح نہیں ہوگا، اور اس میں جو مہر مقرر کیا گیا، وہ نکاحِ صحیح نہ ہونے کی صورت میں ادا کرنا واجب نہیں ہوگا،  البتہ نکاح کی مجلس میں شوہر کی طرف سے سابقہ بیان کردہ مہر یا اس میں اضافہ  کرکے مہر مقرر کرنا دونوں کی شرعًا اجازت ہوگی۔ 

 فتاوی شامی میں ہے:

" وفي الكافي: جدد النكاح بزيادة ألف لزمه ألفان على الظاهر

(قوله: وفي الكافي إلخ) حاصل عبارة الكافي: تزوجها في السر بألف ثم في العلانية بألفين ظاهر المنصوص في الأصل أنه يلزم الألفان ويكون زيادة في المهر. وعند أبي يوسف المهر هو الأول لأن العقد الثاني لغو. فيلغو ما فيه. وعند الإمام أن الثاني وإن لغا لا يلغو ما فيه من الزيادة، كمن قال لعبده الأكبر سنا منه هذا ابني لما لغا عندهما لم يعتق العبد. وعنده إن لغا في حكم النسب يعتبر في حق العتق كذا في المبسوط. اهـ. وذكر في الفتح أن هذا إذا لم يشهدا على أن الثاني هزل وإلا فلا خلاف في اعتبار الأول، فلو ادعى الهزل لم يقبل بلا بينة ثم ذكر أن بعضهم اعتبر ما في العقد الثاني فقط بناء على أن المقصود تغيير الأول إلى الثاني، وبعضهم أوجب كلا المهرين لأن الأول ثبت ثبوتا لا مرد له والثاني زيادة عليه فيجب بكماله. ثم ذكر أن قاضي خان أفتى بأنه لا يجب بالعقد الثاني شيء ما لم يقصد به الزيادة في المهر."

(3 / 112،  باب المہر، ط؛ سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الزيادة في المهر صحيحة حال قيام النكاح عند علمائنا الثلاثة، كذا في المحيط. فإذا زادها في المهر بعد العقد لزمته الزيادة، كذا في السراج الوهاج". (1/ 312)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں