بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے بچہ کے ثبوت نسب کی دلیل


سوال

اگر عورت کو چھے (6) مہینہ میں بچہ پیدا ہوجائے  تو قرآن مجید کی کس آیت سےجائز مانا جائے گا؟

جواب

اگر نکاح کے  چھ مہینے بعد عورت کے ہاں بچہ کی ولادت ہو تو اس کا نسب  اس کے شوہر سے ثابت ہوگا، اور اگر نکاح کے بعد چھ ماہ سے کم میں بچہ کی ولادت ہوجائے تو شرعًا اس کا نسب  ثابت نہیں ہوگا، البتہ اگر اس صورت میں شوہر زنا کی صراحت کیے بغیر اس بچہ کے باپ ہونے کا اقرار کرتا ہے تو اس کا نسب ثابت ہوجائے گا۔ اس  لیے حمل کی کم از کم مدت چھ مہینہ ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا} [الأحقاف: 15]

ترجمہ :  اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے (میں پورا ہوتا ہے)۔

اور دوسری جگہ ارشاد ہے:

{حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ } [لقمان: 14]

ترجمہ : اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے۔

تو  ان میں سے پہلی آیت میں اللہ رب العزت نے حمل کی مدت اور دودھ چھڑانے کی مدت کو  تیس ماہ   ذکر کیا ہے، اور دوسری آیت میں دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ذکر کی ہے،  معلوم ہوا کہ حمل کی  کم از کم مدت چھ مہینہ ہے، اور مذکورہ استدلال حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3 / 211):

"ومنها ثبوت النسب إذا جاءت بولد، والكلام في هذا الموضع في موضعين في الأصل:

أحدهما في بيان ما يثبت فيه نسب ولد المعتدة من المدة، والثاني في بيان ما يثبت به نسبه من الحجة أي يظهر به: أما الأول فالأصل فيه أن أقل مدة الحمل ستة أشهر؛ لقوله عز وجل: {وحمله وفصاله ثلاثون شهرا} [الأحقاف: 15] جعل الله تعالى ثلاثين شهرًا مدة الحمل والفصال جميعا ثم جعل سبحانه وتعالى الفصال وهو الفطام في عامين بقوله تعالى: {وفصاله في عامين} [لقمان: 14] فيبقى للحمل ستة أشهر، وهذا الاستدلال منقول عن ابن عباس -رضي الله عنهما- فإنه روى أن رجلا تزوج امرأة فجاءت بولد لستة أشهر فهم عثمان -رضي الله عنه- برجمها فقال ابن عباس -رضي الله عنهما-: أما إنه لو خاصمتكم بكتاب الله لخصمتكم قال الله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهرا} [الأحقاف: 15] وقال سبحانه: {وفصاله في عامين} [لقمان: 14] أشار إلى ما ذكرنا فدل أن أقل مدة الحمل ستة أشهر وأكثرها سنتان عندنا".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں