بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے چار سال بعد رخصتی / گواہوں کے بغیر نکاح


سوال

1- میرے پڑوس میں ایک لڑکے کا  نکاح ہوا، لیکن کچھ وجوہات کی بنا  پران کی رخصتی چار سال بعد ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ نکاح کے بعد، بنا رخصتی اتنا عرصہ گزارنا ٹھیک ہے؟

2- اگر کوئی جگہ ایسی ہو جہاں کوئی نکاح پڑھانے والا نہ ہو، نہ ہی کوئی تیسرا بندہ ہو جسے گواہ بنایا جا سکے، تو اس صورت میں لڑکا اور لڑکی کا نکاح کیسے ہوگا؟

جواب

1- نکاح ہونے کے بعد حتی الامکان رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول)  وہ رخصتی سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر کی بنا  پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہے، اور رخصتی میں تاخیر کی بنا پر نکاح ختم نہیں ہوجاتا۔

2- نکاح کے منعقد ہونے کے  لیے شرط یہ ہے   کہ دو عاقل بالغ مرد  یا ایک مرد اور  دو عورتوں کی موجودگی میں نکاح کا  ایجاب و قبول ہو،  اور یہ شرط ہر جگہ اور وقت کے لیے ہے، لہٰذا اگر  گواہوں  کی موجودگی کے بغیر کسی نے ایجاب و قبول کر لیا (خواہ لڑکا اور لڑکی ایسی جگہ ہوں جہاں ان کے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہو) تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا اور دونوں میاں بیوی نہیں بن جاتے، بلکہ اجنبی ہی رہتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"( ومنها: ) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح، هكذا في البدائع. وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام ... ويشترط العدد فلاينعقد النكاح بشاهد واحد، هكذا في البدائع. و لايشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين".(6/418)  

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں