بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد مسنون ولیمہ کب کہلائے گا؟


سوال

اگر کوئی شخص نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے اپنی بیوی سے تنہائی میں کچھ وقت گزار دے اور دخول کے علاوہ باقی بوس و کنار کر لے تو کیا یہ ان کی شب عروسی اور رخصتی  کہلائے گی اور اس کے بعد ولیمہ کا کیا حکم ہوگا؟ 

اگر اسی طرح نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے میاں بیوی ساتھ میں رات گزارلیں اور دخول بھی ہوجائے تو کیا یہ ان کی رخصتی اور شب عروسی  کہلائے گی اور  اس کے بعد ولیمہ کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

 "ولیمہ مسنونہ"  کا اعلیٰ اور افضل درجہ یہ ہے کہ شبِ زفاف اور دخول کے بعد ہو۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شبِ زفاف کے بعد اور دخول سے پہلے ہو۔  یہ دونوں مسنون ولیمہ شمار ہوں گے۔  اور اس کے علاوہ  عقد کے بعد، یا رخصتی کے بعد اور شبِ زفاف سے پہلے جو ولیمہ ہو وہ "ولیمہ مسنونہ"  تو نہیں ہوگا، البتہ اس سے نفسِ ولیمہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔ اور جو دعوت اور ضیافت عقدِ نکاح سے ہی پہلے کی جائے وہ ولیمہ ہی نہیں ہوگا، بلکہ عام دعوت ہوگی۔

لہذاصورتِ مسئولہ  میں دونوں صورتوں  میں  یعنی  نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے اپنی بیوی سے تنہائی میں کچھ وقت گزار نےاور بوس و کنار کر نے   کے بعد اور  اسی طرح نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے میاں بیوی کاایک ساتھ رات گزارنے اور دخول (جسمانی تعلق قائم ہونے کےبعد)جوولیمہ کیاجائےوہ "ولیمہ مسنونہ"شمارہوگا۔ 

         حدیثِ مبارک میں ہے:

"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري."

(مشکاۃ المصابیح،باب الولیمہ، الفصل الاول،2/ 278 ، ط:المكتب الإسلامي)

         فیض الباری میں ہے:

"السنة في الولیمة أن تکون بعد  البناء، وطعام ماقبل البناء لایقال له: "ولیمة عربیة".

 (باب الولیمة حق،5 /543، ط: دار الکتب العلمية)

       اعلاء السنن میں ہے:

" وحدیث أنس  في هذا الباب صریح في أنها  الولیمة بعد الدخول......"

(باب استحباب الولیة×،11/ 12، ط: ادارۃ القرآن)

        عمدة القاري میں ہے:

"وقد اختلف السلف في وقتها: هل هو عند العقد أو عقيبة؟ أو عند الدخول أو عقيبه؟ أو موسع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول؟ على أقوال. قال النووي: اختلفوا، فقال عياض: إن الأصح عند المالكية استحبابه بعد الدخول، وعن جماعة منهم: أنها عند العقد، وعند ابن حبيب: عند العقد وبعد الدخول، وقال في موضع آخر: يجوز قبل الدخول وبعده، وقال الماوردي: عند الدخول، وحديث أنس: فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروساً بزينب فدعي القوم، صريح أنها بعد الدخولوَاسْتحبَّ بعض الْمَالِكِيَّة أَن تكون عِنْد الْبناء وَيَقَع الدُّخُول عقيبها، وَعَلِيهِ عمل النَّاس."

( باب الصفرۃ المتزوج،14 /112، ط: امدادیہ ملتان) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ووليمة العرس سنة، وفيها مثوبة عظيمة، وهي إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء، ويذبح لهم، ويصنع لهم طعامًا، وإذا اتخذ ينبغي لهم أن يجيبوا، فإن لم يفعلوا أثموا، قال عليه السلام: «من لم يجب الدعوة، فقد عصى الله ورسوله، فإن كان صائمًا أجاب ودعا، وإن لم يكن صائمًا أكل ودعا، وإن لم يأكل أثم وجفا»، كذا في خزانة المفتين."

 (كتاب الكراهية ،الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات،5/ 343،ط:رشيدية)

امداد الاحکام میں ہے:

" ولیمہ مشہور قول میں تو اسی دعوت کا نام ہے جو شبِ زفاف ودخول کے بعد ہو. اور بعض اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت سے دخول کے بعد تک جو بھی دعوت ہو ولیمہ ہی ہے، مگر راجح قول اوّل ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے  ولیمہ بعد الدخول ہی ثابت ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ،4/291،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100922

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں