بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد پیکٹ/ لفافے میں کچھ شیرینی اور چھوارے وغیرہ ڈال کر مہمانوں میں تقسیم کرنے کی شرعی حیثیت


سوال

آج کل نکاح کے بعد ایک پیکٹ یا لفافے میں کچھ شیرینی اور چھوارے وغیرہ ڈال کر اسکو مہمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کو عرف عام میں بِد کہا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب

نکاح  کے موقع پر چھوارے کچھ شیرینی وغیرہ  تقسیم کرنا سنت ہے،اور یہ درست ہے۔

اعلاء السنن میں ہے: 

"قالت أم حبیبة زوج النبیﷺ: ... فقال: اجلسوا فإنّ سنة الأنبیاء علیهم الصلاة و السلام إذا تزوجوا أن یؤکل الطعام علی التزویج، فدعا بطعام فأکلوا ثم تفرقوا ...
قلت : و لیس ذلك بولیمة بل هو طعا م التزویج، و یلتحق به ما تعارفه المسلمون من نثر التمر ونحوہ في مجلس النكاح. فقد روى البیهقي عن معاذ بن جبل بسند فیه ضعف و انقطاع: أن النبي ﷺ حضر في املاك (أي نكاح) فأتي بطباق علیھا جوز و لوز و تمر، فنثرت فقبضنا أیدینا، فقال: ما بالكم لاتأخذون؟ فقالوا: لأنك نھیت عن النھبى! فقال: مما نھیتكم عن نھبى العساكر خذوا على اسم اﷲ فجاذبنا وجاذبناہ."

(كتاب النكاح ، ج:11، ص:12، ط:ادارة القران والعلوم الاسلاميه كراتشي)

 المبسوط للسرخسي میں ہے:

"وقال أبو حنيفة: لا بأس بنثر السكر والجوز اللوز في العرس والختان وأخذ ذلك إذا أذن لك أهله فيه، وإنما يكره من ذلك أن يأخذ بغير إذن أهله وبه نأخذ ."

(آخرکتاب اختلاف ابی حنیفة وابن ابی لیلیٰ،  ج:30، ص: 167، ط؛ دارالمعرفة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا بأس بنثر السكر والدراهم في الضيافة وعقد النكاح، كذا في السراجية."

( کتاب الکراهیة، الباب الثالث عشر في النهبة ونثر الدراهم والسكر وما رمى به صاحبه، ج:5، ص:345، ط: رشیدیه)

 السنن الكبرى  میں ہے:

"وقد روي في الرخصة، فيه أحاديث كلها ضعيفة."

 وفيه أيضاً:

" أخبرنا أبو سعد الماليني، أنا أبو أحمد بن عدي، نا محمد بن عثمان وراق عبدان نا عمرو بن سعيد الزعفراني، نا الحسن بن عمرو، نا القاسم بن عطية، عن منصور بن صفية، عن أمه، عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " تزوج بعض نسائه فنثر عليه التمر " الحسن بن عمرو وهو ابن سيف العبدي بصري عنده غرائب."

 وفيه أيضاً:

"أخبرنا أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين السلمي أنا عبد الله بن محمد بن موسى بن كعب، أنا محمد بن غالب، نا زكريا بن يحيى، نا عاصم بن سليمان، نا هشام بن عروة، عن أمه، عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا زوج أو تزوج نثر تمرا " عاصم بن سليمان بصري رماه عمرو بن علي بالكذب ونسبه إلى وضع الحديث ."

 وفيه أيضاً:

 "أخبرنا أبو القاسم إسماعيل بن إبراهيم بن علي بن عروة البندار ببغداد نا أبو سهل بن زياد القطان، نا أبو الفضل صالح بن محمد الرازي حدثني عصمة بن سليمان الجرار، نا لمازة بن المغيرة، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: " شهد النبي صلى الله عليه وسلم أملاك رجل من أصحابه فقال: " على الألفة والطير المأمون والسعة في الرزق بارك الله لكم دففوا على رأسه " , قال: فجيء بالدف وجيء بأطباق عليه فاكهة وسكر فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " انتهبوا "، فقال: يا رسول الله أولم تنهنا عن النهبة؟ قال: " إنما نهيتكم عن نهبة العساكر أما العرسات فلا " قال: فجاذبهم النبي صلى الله عليه وسلم وجاذبوه " في إسناده مجاهيل وانقطاع وقد روي بإسناد آخر مجهول عن عروة عن عائشة رضي الله عنها عن معاذ بن جبل ولا يثبت في هذا الباب شيء والله أعلم."

(باب ما جاء فی النثار فی الفرح،ج: 7، ص: 287/ 288، ط؛ نشر السنة ملتان)

 لسان الميزان میں ہے:

"عاصم" بن سليمان أبو شعيب التميمي الكوزى1 البصري وكوز قبيلة روى عن هشام بن عروة وجماعة قال ابن عدي يعد ممن يضع الحديث وقال الفلاس كان يضع الحديث ما رأيت مثله قط سمعته يحدث عن هشام عن محمد عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا "شرب الماء على الريق يعقد الشحم" فقال له رجل الرجل يبزق في الدواة ثم يكتب منها فقال حدثنا سعيد عن قتادة عن أبي سنان الأعرج عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان يبزق في الدواة ثم يكتب منها فقال له فابن عباس كان أعمى قال كان لا يرى به بأسا وحدثنا عبد الله عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه كرهه وقال النسائي متروك وقال الدارقطني كذاب وقال ابن حبان لا يجوز كتب حديثه إلا تعجبا عاصم بن سليمان الكوزى بإسناد والمتهم به عاصم ."

( حرف العین المھمله،ج:3، ص:218، ط؛ ادارۃ تالیفات اشرفیه)

      مندرجہ بالا عبارات سے اس عمل کا مباح  ہونا معلوم  ہوتا ہے، جیساکہ”لابأس“لفظ اس پر دلالت کرتا ہے،  باقی جن روایات میں  عقدِ نکاح کے موقع پر  چھوہارے لٹانے کا ذکر ہے وہ انتہائی ضعیف ہیں، ان روایات سے اس  عمل کے سنت ہونے پر استدلال  کرنا درست نہیں ہے،  امام بیہقی ؒ  فرماتے ہیں کہ  چھوہارے لٹانے سے  متعلق  جو روایات  منقول ہیں وہ سب ضعیف ہیں ۔

مولانا مفتی رضاء الحق صاحب  نکاح کے وقت چھوہارے یا کھجور تقسیم کرنے  کے بارے میں  لکھتے ہیں :

عقدِ نکاح کے وقت کھجور  لُٹانے کی روایات انتہائی ضعیف ہیں، لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں، البتہ کوئی شخص خوشی  کے اس موقع پر مسجد کے احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے اور وہاں کے  لوگ بھی اس سے مانوس ہوں تو جائز ہے، البتہ سنت نہ سمجھے، لیکن لوگ اس کو سنت سمجھتے ہیں اور مسجد کا احترام بھی نہیں رہتا، لہٰذا اجتناب بہتر ہے۔ "

(فتاویٰ دار العلوم زکریا،  کتاب النکاح، ج:3، ص:654، ط: زمزم)

حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ  تحریر فرماتے ہیں :

"خرما لٹانے کی حدیث صحیح نہیں، اور اس میں اندیشہ تکلیف حاضرین کا ہے؛ لہٰذا نہ کرے۔"

(باقیات فتاوی رشیدیہ، ص:250، ط: الہی بخش اکیدمی

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101714

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں