ولی کی اجازت کے ہوتے ہوئے اگر لڑکا اور لڑکی نکاح کر لیں اور عقدِ نکاح کے بعد گواہ بنا دیں آیا لڑکا اور لڑکی فون پر گفتگو کر سکتے ہیں؟
نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس کا ایک ہونا اور اس میں جانبین (لڑکا اور لڑکی) میں سے دونوں کا خود موجود ہونا یا ان کے وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے، نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں ولی کی اجازت سے اگر لڑکا اور لڑکی نے باقاعدہ نکاح کا ایجاب وقبول کرلیا ، اور اسی (نکاح کی) مجلس میں دو گواہ بھی موجود تھے جنہوں نے براہِ راست نکاح کے ایجاب وقبول کے الفاظ سنے تو یہ نکاح منعقد ہوگیا، اور لڑکا اور لڑکی دونوں میاں بیوی بن گئے ، ان کے لیے باہم بات چیت کرنا جائز ہے۔
لیکن اگر نکاح کا ایجاب وقبول ایک مجلس میں نہیں ہوا، یا اس مجلس میں گواہ نہیں تھے، بعد میں ان کو اطلاع دی گئی تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، اس صورت میں لڑکا اورلڑکی چوں کہ دونوں اجنبی ہیں، اس لیے ان کا باہم رابطہ، بات چیت اور تعلقات جائز نہیں ہیں، اگرچہ ولی کی اجازت ہو۔
الدر المختار میں ہے:
"(وَ) شُرِطَ (حُضُورُ) شَاهِدَيْنِ (حُرَّيْنِ) أَوْ حُرٌّ وَحُرَّتَيْنِ (مُكَلَّفَيْنِ سَامِعَيْنِ قَوْلَهُمَا مَعًا) عَلَى الْأَصَحِّ (فَاهِمَيْنِ) أَنَّهُ نِكَاحٌ عَلَى الْمَذْهَبِ بَحْرٌ (مُسْلِمَيْنِ لِنِكَاحِ مُسْلِمَةٍ وَلَوْ فَاسِقَيْنِ أَوْ مَحْدُودَيْنِ فِي قَذْفٍ أَوْ أَعْمَيَيْنِ أَوْ ابْنَيْ الزَّوْجَيْنِ أَوْ ابْنَيْ أَحَدِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) بِالِابْنَيْنِ".(3/21)
وفي الدر المختار مع رد المحتار:
"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین ...
(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً".
(کتاب النکاح: ۳/ ۱۴، ط: سیعد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144205200020
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن