بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے وقت طے شدہ شرط پوری نہ کرنے کی صورت میں نکاح کا حکم


سوال

تین سال پہلے میری شادی ہوئی تھی ،میرے شوہر کی یہ دوسری شادی تھی ، میرے شوہر نے میرے گھروالوں کو یہ بتایا تھا کہ اس نے اپنی پہلی بیوی سے دوسرے نکاح کی  اجازت لے رکھی ہے ،نیز وہ بے اولاد ہے اور  اولاد کے لیے شادی کرنا چاہتا ہے ۔اور اس نے  یہ بھی بتایاتھا  کہ :میں نے اپنی پہلی بیوی سے شادی اسی شرط پر کی تھی کہ وہ مجھے دوسری شادی کر نے دے گی!

 جب میری شادی ہوئی تو میری سوتن نے مجھ پر زندگی تنگ کر دی یہاں تک کہ مجھے گھر سے  بھی نکلوا دیا، مجھے بعد میں پتہ چلا کہ شادی سے پہلے بھی پوری کوشش کی تھی کہ یہ شادی نہ ہو،لہذا اس نے وہ شرط پوری نہ کی جس شرط پر اس کا نکاح ہوا تھا،بلکہ  میری زندگی برباد کی ۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا نکاح جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح میں  فریقین کوئی بھی جائز  شرط طے کرلے اور اس شرط پر عمل کرنے سے اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے کسی حکم کی   خلاف ورزی کا ارتکاب نہ  ہوتا ہو، تو  ایسی شرط طے کرنے سے   نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا،بلکہ نکاح منعقد اور صحیح  ہوجاتا ہے،لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے شوہر کا اپنی پہلی بیوی کے ساتھ نکاح صحیح ہے اور قائم ہے،چاہے  آپ کی سوتن  اس شرط کی پابندی  کرے یا نہ کرے۔

مردوں کو شرعا دوسری شادی کی اجازت ہے،لیکن دوسری شادی کی صورت میں دونوں بیویوں کے درمیان برابری  کرنا،دونوں کے حقوق ادا کرنا شوہر کی ذمہ داری  ہے،ورنہ سخت گناہ گار ہوگا،چناں چہ اگر پہلی بیوی دوسری بیوی کو  ایک ہی گھر میں ساتھ رکھنے پر راضی نہیں ہے ،تو  شوہر کی ذمہ داری ہے وہ  دوسری بیوی کو الگ گھر میں رکھے۔

رہی آپ کی سوتن جو آپ کو تکلیف پہچارہی ہےوہ اپ نے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہوگی، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے "کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا رسانی) سے مسلمان محفوظ رہیں" ایک اور موقعے پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ" ظلم سے بچو! ظلم قیامت کے دن تاریکی کی صورت میں ہوگا" لہذا آپ کی  سوکن پر لازم ہے وہ آپ پر ظلم سے باز آجاۓ،وگرنہ قیامت کے دن پکڑ ہوگی۔

 مسلم شریف میں ہے:

"سمعت جابرا يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقو: ‌المسلم ‌من ‌سلم المسلمون من لسانه ويده."

(كتاب الإيمان،باب بيان تفاضل الإسلام، وأي أموره أفضل، 65/1، ط:دار إحياء التراث العربي)

 مسلم شریف میں ہے:

"‌عن جابر بن عبد الله؛أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:اتقوا ‌الظلم. فإن الظلم ظلمات يوم القيامة."

(كتاب البر والصلة والآداب،باب تحريم الظلم، 1996/4، ط:دار إحياء التراث العربي)

 

بدائع الصنائع میں ہے:

"النكاح لا تبطله ‌الشروط ‌الفاسدة فبطل الشرط وبقي النكاح صحيحا."

(كتاب النكاح،فصل التأبيد، 273/2، ط؛سعيد)

فتاوي قاضي خان ميں هے:

"رجل تزوج امرأة علي ان ينفق عليها في كل شهر مائة دينار۔قال ابو حنيفة رحمه الله تعالي النكاح جائز ولها نفقة مثلها بالمعروف."

(كتاب النكاح،فصل في النكاح علي الشرط، 293/1، ط:دار الكتب العلمية)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض.نهر (أن يعدل) أي أن لا يجوز (فيه) أي في ‌القسم ‌بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول)والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب."

(كتاب النكاح،باب القسم، 201:202/3، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"اذا كان للرجل امرأتان حرتان فعليه  ان يعدل بينهما."

(كتاب النكاح،باب القسم،201:/3، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں