کیا نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے طلاق کی صورت میں مطلقہ کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے؟
واضح رہے کہ مطلقہ کی بیٹی سے نکاح اس صورت میں ہو سکتا ہے جب شوہر نے نکاح کے بعد نہ اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے ہوں، اور نہ ہی خلوت صحیحہ (بغیر کسی شرعی و طبعی رکاوٹ کے تنہائی میں ایک ساتھ جمع ہونا) ہو چکی ہو، بصورتِ دیگر مطلقہ کی بیٹی سے نکاح کرنا شرعاً جائز نہیں ۔
اس وضاحت کی رو سے صورتِ مسئولہ میں نکاح کے بعد رخصتی سے قبل( مطلقہ سے شوہر نے نکاح کے بعد نہ ازدواجی تعقات قائم کیے ہوں، اور نہ ہی خلوت صحیحہ کی ہو) طلاق کی صورت میں مطلقہ کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"أسباب التحريم أنواع...مصاهرة...(قوله: مصاهرة) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح."
(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ج:3، ص:28، ط:سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقا بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة لما تقرر أن وطء الأمهات يحرم البنات ونكاح البنات يحرم الأمهات...في الرد...واحترز بالموطوءة عن غيرها، فلا تحرم بنتها بمجرد العقد وفي ح عن الهندية أن الحلوة بالزوجة لا تقوم مقام الوطء في تحريم بنتها.
قلت: لكن في التجنيس عن أجناس الناطفي قال في نوادر أبي يوسف إذا خلا بها في صوم رمضان أو حال إحرامه لم يحل له أن يتزوج بنتها. وقال محمد :’’ يحل فإن الزوج لم يجعل واطئا حتى إذا كان لها نصف المهر‘‘ وظاهره أن الخلاف في الخلوة الفاسدة، أما الصحيحة فلا خلاف في أنها تحرم البنت."
(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ج:3، ص:30، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100090
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن