بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے شوہر غائب ہوجائے تو فسخِ نکاح اور عدت کا کیا حکم ہے؟


سوال

 جب نکاح ہوا ہو،  رخصتی نہ ہوئی ہو اور شوہر غائب ہوجائے تو فسخِ نکاح اور عدت کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں شوہر کے غائب ہوجانے کی  وجہ سے اگر بیوی کے لیے عفت اور پاک دامنی کے ساتھ   شوہر کا  انتظار مشکل ہو تو عورت  عدالت میں مقدمہ دائر کرے،عدالت سرکاری تعاون سے ہر طرح کی تحقیقات کرنے کے بعد ایک سال کی مدت مقرر کرے، سال گزرنے پر بھی شوہر کا پتا نہ چلے،  تو عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے۔  عدالت کے فیصلے کے بعد عدتِ وفات  (چار ماہ، دس دن) گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے  پہلے شوہر سے بحال ہوجائےگا، اور دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا،  دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ البتہ اگر دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرچکا ہو تو پہلا شوہر عورت کو ایک حیض آنے تک ہم بستر نہیں ہوگا۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے۔غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘۔

:المبسوط للسرخسی میں ہے

"وكأن عمر - رضي الله عنه - إنما رجع عن قوله في امرأة المفقود لما تبين من حال هذا الرجل، وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر - رضي الله عنه - في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت، وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حيا إنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي - رضي الله عنه -، فإنه كان يقول ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر وبهذا كان يأخذ إبراهيم - رحمه الله - فيقول: قول علي - رضي الله عنه - أحب إلي من قول عمر - رضي الله عنه -، وبه نأخذ أيضا؛ لأنه تبين أنها تزوجت، وهي منكوحة ومنكوحة الغير ليست من المحللات بل هي من المحرمات في حق سائر الناس كما قال الله تعالى: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] فكيف يستقيم تركها مع الثاني، وإذا اختار الأول المهر، ولكن يكون النكاح منعقدا بينهما فكيف يستقيم دفع المهر إلى الأول، وهو بدل بضعها فيكون مملوكا لها دون زوجها كالمنكوحة إذا وطئت بشبهة، فعرفنا أن الصحيح أنها زوجة الأول، ولكن لا يقربها لكونها معتدة لغيره كالمنكوحة إذا وطئت بالشبهة.

وذكر عن عبد الرحمن بن أبي ليلى - رحمه الله - أن عمر - رضي الله عنه - رجع عن ثلاث قضيات إلى قول علي - رضي الله عنه -، عن امرأة أبي كنف، والمفقود زوجها، والمرأة التي تزوجت في عدتها. أما حكم المفقود والمعتدة فقد بينا."

(المبسوط للسرخسي: كتاب المفقود (11/ 37)،ط.  دار المعرفة - بيروت، تاريخ النشر: 1414هـ - 1993م)

                        فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں