بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کروانے کی بروکری کا حکم، تصاویر کے تبادلہ کا حکم، میک اپ کا حکم


سوال

کیا نکاح کے لیے ایجنٹ کو فوٹو اور پیسہ دینا صحیح ہے؟

آج کل نکاح کے لیے لڑکے اور لڑکی اپنی عمر کم بتاتے ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟

سادگی دین کا حصہ ہے تو پھر رشتے والے میک اپ والی فوٹو کی ڈیمانڈ کیوں کرتے ہیں؟ اور آج کل گھر تک رشتے آنا مشکل ہو گیا۔

جواب

اگر کوئی شخص/ اداره/ ايجنٹ باقاعدہ رشتہ کروانے کے لیے لڑکے یا لڑکی والوں سے معاہدہ کر لے، بروکری کی رقم کا تعین بھي كر لے اور وہ اس کام کے لیے بھاگ دوڑ بھی کرے تو اس کے لیے پیسہ لینا جائز ہو گا، مگر اسلامی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ اس طرح کے مبارک اورنیک عمل کو بطورِ پیشہ نہیں،بلکہ بطورِعبادت انجام دینا چاہیے؛ کیوں کہ کسی کامناسب رشتہ کرادینا اس کی اور معاشرے کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کر دینا ہے۔

جاندار کی تصویر بنانا، دیکھنا اور دوسروں کو بھیجنا جائز نہیں ہے، لہٰذا ایجنٹ کو یا کسی دوسرے شخص کو جاندار کی تصاویر بھیجنا جائز نہیں ہوگا۔

عمر سے متعلق غلط بیانی جھوٹ اور دھوکا  ہے اور جھوٹ بولنا  اور دھوکا  دینا سخت گناہ ہے، ان سے بچنا ضروری ہے۔

شریعتِ مطہرہ نے جائز حدود میں رہتے ہوئے عورت کو بناؤ سنگھار کرنے کی اجازت دی ہے، خیال ہو کہ وہ میک اپ غیر محرم مردوں كو دكھانے کے لیے نہ ہو، پردے میں رہ کر کیا جائے، اس میں کوئی نا جائز امر شامل نہ ہو، مثلاً بھنویں کاٹنا، کسی دوسرے انسان کے بال اپنے بالوں کے ساتھ جوڑنا وغیرہ، لہذا جو میک اپ شرعی حدود کے اندر ہو، اور اس میں کوئی امرِ ممنوع نہ ہو، وہ میک اپ سادگی کے منافی نہیں ہے، ایسا میک اپ کیا جا سکتا ہے، ليكن پہلے واضح ہو چکا کہ تصویر کا بنانا اور بھیجنا مطلقاً منع ہے، اس لیے ایجنٹ کا کسی قسم کی تصویر کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، اس قسم كے  مطالبے غير شرعی  ہیں، اس  سے اجتناب كر كے  شاديوں كو  شرعی  اُصولوں كے مطابق بنانے  کی  كوشش كرنا  چاہیے۔

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «فتاوى الفضلي» : الدلالة في النكاح لا يستوجب الأجر وبه كان يفتي رحمه الله، وغيره من مشايخ زمانه كانوا يفتون بوجوب أجر المثل لهما، لأن ‌معظم ‌الأمر ‌في ‌النكاح يقوم بها، ولها سعي في إصلاح مقدمات النكاح، فيستوجب أجر المثل بمنزلة الدلال في باب البيع، وبه يفتى."

(كتاب الإجارات،الفصل الرابع والثلاثون: في المتفرقات،7/ 644،ط:دار الكتب العلمية)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"والبذاذة مقابل للتكلف والاهتمام لا التجمل المتوسط، فقد ورد ان الله يحب الجمال."

(كتاب الحظر والاباحه، مسائلِ متفرقه، جلد:4، صفحه: 319، طبع: دار العلوم كراچي)

لسان العرب میں ہے:

"قال: والبذاذة أن يكون يوما متزينا ويوما شعثا. ويقال: هو ترك مداومة الزينة."

(ذال، فصل الباء موحدۃ، جلد:3، صفحہ: 477، طبع: دار صادر بیروت)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"‌البذاذة ‌من ‌الإيمان ... والمراد من الحديث أن التواضع في اللباس والتوقي عن الفائق في الزينة من أخلاق أهل الإيمان، والإيمان هو الباعث عليه."

(کتاب اللباس، جلد:7، صفحہ: 2782، طبع: دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں