میری پھوپھی کا عنقریب نکاح ہونے والا ہے، مجھے اس میں وکیل بنایا جائے گا، اس لیے آپ سے مجھے پوچھنا یہ ہے کہ وکیل لڑکی سے نکاح کی اجازت کس طرح اور کن الفاظ میں لے؟ اور قاضی کے سامنے کن الفاظ میں اپنی اجازت کا بتائے؟ براہ ِکرم جلد جواب عنایت فرمائیں۔
سائل کے لیے اپنی پھوپھی کی طرف سے نکاح کا وکیل بننے کا طریقہ یہ ہے کہ سائل کی پھوپھی سائل کو یہ کہے کہ میں آپ کو وکیل بناتی ہوں کہ آپ میرا فلاں بن فلاں سے اتنے مہر کے عوض نکاح کردیں/ کرادیں، یا سائل ان سے پوچھ لے کہ کیا آپ مجھے فلاں بن فلاں سے اتنے مہر کے عوض آپ کا نکاح کرانے کا وکیل بناتی ہیں؟یا اجازت دیتی ہیں؟اور پھوپھی جواب میں ہاں کہہ دے۔
البتہ نکاح کی مجلس میں قاضی دلہن کے وکیل(سائل) سے خود پوچھے گا کہ کیا آپ نے فلانہ بنت فلاں کا نکاح فلاں بن فلاں سے اتنے مہر کے عوض میں کیا، تو اس کے جواب میں سائل کہہ دے" میں نے کردیا" یا اس جیسے الفاظ کہہ دے۔
فتاوی شامی میں ہے:
الوكيل في النكاح سفيرومعبر، ينقل عبارة الموكل."
(کتاب النکاح، مطلب فی عطف الخاص علی العام،ج:24/3،ط: ایچ ایم سعید )
بدائع الصنائع میں ہے:
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".
(2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504101013
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن