بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کا گواہ مقامی زبان نہ جانتا ہو تو کیا حکم ہے ؟


سوال

اگر نکاح میں کوئی شخص گواہ بنایا گیا، لیکن وہ یہاں کی زبان نہیں جانتا، تو کیا اس شخص کی گواہی سے نکاح ہوجائے گا ؟یا گواہ تبدیل کرنا ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر نکاح کے دو گواہوں میں سے کوئی ایک گواہ مقامی زبان نہ جاننے کی وجہ سے  عاقدین کے ایجاب و قبول  کو نہ سمجھ سکتا ہو تو اس صورت میں محض ایک گواہ کی موجودگی میں نکاح درست نہیں ہوگا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 23)

'' (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معاً) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب.... قوله (فاهمين الخ ) قال في البحر جزم في التبيين بأنه لو عقدا بحضرة هنديين لم يفهما كلامهما لم يجز وصححه في الجوهرة ''۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 94)

’’ واختلف في اشتراط سماع الشاهدين معا فنقل في الذخيرة روايتين عن أبي يوسف وجزم في الخانية بأنه شرط فكان هو المذهب فلو سمعا كلامهما متفرقين لم يجز ولو اتحد المجلس فلو كان أحدهما أصم فسمع صاحب السمع ولم يسمع الأصم حتى صاح صاحبه في أذنه أو غيره لا يجوز النكاح حتى يكون السماع معا ، كذا في الذخيرة ، واختلف أيضا في فهم الشاهدين كلامهما فجزم في التبيين بأنه لو عقد بحضرة هنديين لم يفهما كلامهما لم يجز وصححه في الجوهرة ‘‘۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں