بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے موقع پر دولہن کی ولدیت غلط ذکر کردی


سوال

 ہماری ایک عزیزہ ہیں ان کی پہلی شادی ناکام ہوئی، دوسری شادی کے وقت پہلے شوہر کا ایک بیٹا اور دو ماہ کی ایک بیٹی تھی،   دوسرے شوہر نے بیوی کے پہلے شوہر کے دونوں بچوں کو بہت محبت سے بالکل اپنے ہی بچوں کی طرح پالا بڑا کیا،  بچے بڑے ہو گئے، اصل باپ حیات ہے  (آپس میں کچھ دور کی رشتہ داری بھی ہے) ۔ اگرچہ بچوں کو اپنے اصل باپ سے متعلق پوری آگاہی ہے، باپ نے ہی بچوں کو رکھنا یا خرچہ دینا یا ملاقات تعلق رکھنا پسند نہ کیا۔ اب  ایک سال قبل اس خاتون کی بیٹی کی شادی ہوئی ،  مگر نکاح کے وقت شناختی کارڈ نہیں بنا تھا ، اور  موجود سوتیلے باپ کے رشتے دار تھے   تو غلطی سے باپ کے خانے میں سوتیلے باپ کا نام درج ہوگیا ،  اس میں جان بوجھ کر کسی سے کوئی غلطی نہیں ہوئی :

1: اب شناختی کارڈ تو شوہر کے نام سے بن جائے گا، لیکن اس کے لیے بھی لڑکی کے سگے والد کا شناختی کارڈ درکار  ہے،  جب کہ وہ تعاون نہیں کر رہے، اس صورتِ  حال میں بقیدِ حیات سگے والد کی جگہ، سرپرست کی حیثیت سے سوتیلے والد کا نام استعمال کیا جا سکتا ہے؟

2 : نکاح کے وقت جو غلطی سے اصل باپ کے طور پر سرپرست/سوتیلے باپ کا نام درج ہوگیا، اس سے نکاح پر فرق پڑا؟

نکاح کی دستاویز دوبارہ بنوائی جائے؟  اس کے لیے وہی نکاح دوبارہ کیا جائے؟ (یہ، شادی ہونے والی لڑکی کی ماں کے سوالات ہیں)  اس خاتون یعنی ماں کی دونوں شادیوں سے متعلق تمام حالات و واقعات کی میری بہن اور ان کے شوہر گواہ ہیں   کہ چھوٹی اور adopted بہن ہونے کی وجہ سے میری بہن بہنوئی نے ہی ان کی سرپرستی تاحال جاری رکھی ہوئی ہے ۔

جواب

1۔ صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ لڑکی کے والد  پر شرعًا لازم ہے کہ اپنی بیٹی کی  قانونی دستاویزات کی تکمیل میں ضروری کاغذات فراہم کرے، بصورتِ  دیگر وہ گناہ گار ہوگا۔

پس مسئولہ صورت میں لڑکی کے والد  سے شناختی کارڈ و دیگر ضروری دستاویزات لینے کی  پہلے ہر ممکن کوشش کی جائے، اگر پھر بھی وہ دینے پر راضی نہ ہو، تو بطور سرپرست  دوسرے شوہر کا نام لکھوانے کی اجازت ہوگی، تاہم   بطور والد  (یعنی ولدیت کے خانے میں) لکھوانے  کی شرعًا اجازت نہ ہوگی۔

2۔ صورتِ  مسئولہ میں اگر مجلس ِ  نکاح میں دولہن موجود نہ تھی، اور  اس کے وکیل نے اس کی جانب سے ایجاب و قبول کرتے ہوئے اس کی ولدیت میں غلطی کی ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ نکاح درست نہ ہوا، لہذا فوری طور پر ان صحیح ولدیت کے ساتھ دوبارہ نکاح کرانا ضروری ہوگا، نکاح کرائے بغیر مذکورہ لڑکا اور اور لڑکی کا میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہنا جائز نہ ہوگا۔

نئے نکاح نامہ میں صحیح ولدیت درج کی جائے، یا کم از کم ایجاب و قبول کے وقت درست ولدیت کے ساتھ لڑکی کا نام ذکر کیا جائے۔

تنوير الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(غَلِطَ وَكِيلُهَا بِالنِّكَاحِ فِي اسْمِ أَبِيهَا بِغَيْرِ حُضُورِهَا لَمْ يَصِحَّ) لِلْجَهَالَةِ وَكَذَا لَوْ غَلِطَ فِي اسْمِ بِنْتِهِ إلَّا إذَا كَانَتْ حَاضِرَةً وَأَشَارَ إلَيْهَا فَيَصِحُّ."

رد المحتار میں ہے:

"(قَوْلُهُ: لَمْ يَصِحَّ) لِأَنَّ الْغَائِبَةَ يُشْتَرَطُ ذِكْرُ اسْمِهَا وَاسْمِ أَبِيهَا وَجَدِّهَا، وَتَقَدَّمَ أَنَّهُ إذَا عَرَفَهَا الشُّهُودُ يَكْفِي ذِكْرُ اسْمِهَا فَقَطْ خِلَافًا لِابْنِ الْفَضْلِ وَعِنْدَ الْخَصَّافِ يَكْفِي مُطْلَقًا وَالظَّاهِرُ أَنَّهُ فِي مَسْأَلَتِنَا لَا يَصِحُّ عِنْدَ الْكُلِّ؛ لِأَنَّ ذِكْرَ الِاسْمِ وَحْدَهُ لَا يَصْرِفُهَا عَنْ الْمُرَادِ إلَى غَيْرِهِ، بِخِلَافِ ذِكْرِ الِاسْمِ مَنْسُوبًا إلَى أَبٍ آخَرَ، فَإِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَحْمَدَ لَا تَصْدُقُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ تَأَمَّلْ، وَكَذَا يُقَالُ فِيمَا لَوْ غَلِطَ فِي اسْمِهَا."

( شامی، كتاب النكاح، ٣ / ٢٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144110201153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں