کیا نکاح کے لیے لڑکی سے پوچھنا ضروری ہے یا صرف والدین کی رضامندی مقصود ہے؟ 12 یا 13 سال کی لڑکی 28 یا 29 سال کے آدمی کو بیاہ کرنا شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟
1۔ شرعاً نکاح کے درست ہونے کے لیے بالغ دولہا و دولہن کی رضامندی ہونا ضروری ہے، والدین کی رضامندی کافی نہیں، البتہ نا بالغ کے نکاح میں ولی (والد ، دادا) کی رضامندی کے ساتھ ایجاب و قبول انعقادِ نکاح کے لیے کافی ہے۔
2۔ باہمی رضامندی سے (اگر لڑکی بالغہ ہے تو اس کی اجازت سے، ورنہ اس کے ولی کی اجازت سے) ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے، بشرطیکہ غیر کفو نہ ہو۔
باقی زوجین کی عمر میں اتنا تفاوت، رشتے کے موافق ہونے یا نہ ہونے میں اصل کا درجہ نہیں رکھتا، دونوں ہی طرح کی مثالیں مل سکتی ہیں۔ شرعی قانون کی رو سے یہ (عمر کا تفاوت) ممانعتِ نکاح کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ رسول اللہ ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا جو از روئے روایاتِ صحیحہ رسول اللہ ﷺ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں، جب کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کا نکاح جب ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال عمر تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی عمر اس وقت کم و بیش چون سال عمر تھی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200513
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن