بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے گواہوں سے متعلق چند روایات


سوال

نكاح کے گواہ سے متعلق احاديث مطلوب ہیں؟

جواب

نکاح کے گواہوں سے  مختلف روایات کُتبِ احادیث میں كئ  صحابه كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين سےثابت ہیں ، مختصرا چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں : 

1- ’’سنن ترمذی ‘‘ میں ہے :  

" عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البغايا اللاتي ينكحن أنفسهن بغير بينة. "

حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرمایا: زنا کار ہیں وہ عورتیں جو گواہوں کے بغیر خود نکاح کر لیتی ہیں۔

(سنن الترمذی، باب ما جاء لا نكاح إلا بولي، (2/ 402)  برقم (1103)، ط/ دار الغرب الاسلامي ، بيروت) 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں ہوگا۔

2- ’’سنن الدار قطني ‘‘ میں ہے: 

1- " عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نكاح إلا بولي وشاهدي عدل، وأيما امرأة أنكحها ولي مسخوط عليه فنكاحها باطل. "

يعني كه ولي اور دوگواہوں کے بغیر کیا گیا نکاح درست نہیں ۔

(سنن الدار قطني، (4/ 315) برقم (3521)، ط/ مؤسسة الرسالة، بيروت)

2-  "عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نكاح إلا بولي وشاهدي عدل. "

(سنن الدار قطني، (4/ 322) برقم (3531)، ط/ مؤسسة الرسالة، بيروت)

3- " عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نكاح إلا بولي وشاهدي عدل. "

(سنن الدار قطني، (4/ 322) برقم (3532)، ط/ مؤسسة الرسالة، بيروت)

4- عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نكاح إلا بولي وشاهدي عدل فإن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي له. "

 (سنن الدار قطني، (4/ 323) برقم (3533)، ط/ مؤسسة الرسالة، بيروت)

ان احاديث   سے  معلوم ہوا کہ نکاح کے لئے دو گواہ ہونا ضروری ہے، ورنہ نکاح نہیں ہوگا۔

3- ’’موطأ امام محمد‘‘ میں ہے : 

"عن إبراهيم  أن عمر بن الخطاب أجاز شهادة رجل وامرأتين في النكاح والفرقة . "

(موطأ الإمام محمد، باب نكاح السر، (2/ 448) برقم (534)، ط/ دار القلم، دمشق)  

’’سنن الکبری بیہقی ‘‘ میں ہے : 

" عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه: أنه أجاز شهادة النساء مع الرجل في النكاح. "

(السنن الكبرى للبيهقي، باب لا نكاح إلا بشاهدين عدلين، (7/ 205) برقم (13728)، ط/ دار الكتب العلمية، بيروت)

 اس اثر سے معلوم ہوا کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی نکاح اور طلاق میں کافی ہے۔

نوٹ : مزید روایات کی تفصیل کے لیے  ’’ السنن الكبرى للبيهقي‘‘ کے ’’باب لا نكاح إلا بشاهدين عدلين‘‘ کی مراجعت کی جائے ۔

شادی کے گواہ کی کیا حیثیت ہے؟

ازروئے شرع نکاح صحیح ہونے کے لیے دولہا اور دلہن کی طرف سے علیحدہ علیحدہ دو گواہ ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ عاقدین (جو عموماً دولہا اور دلہن کا وکیل ہوتے ہیں) اور قاضی  کے علاوہ اگر دو مسلمان مرد  یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتیں گواہ ہوں تو نکاح منعقد ہوجاتاہے، اور اگر مسلمانوں کے مجمع میں نکاح ہوجائے اور باقاعدہ کسی کا نام گواہ کے طور پر نہ لکھا جائے تو  بھی شرعاً یہ نکاح منعقد ہوجاتاہے۔ البتہ نکاح نامہ کے مندرجات پر کرتے ہوئے قانونی تقاضا یہ ہے کہ شادی کے دو گواہ نامزد ہوں، یہ گواہ لڑکی کے رشتہ دار بھی ہوسکتے ہیں اور لڑکے کے رشتہ دار بھی ہوسکتے ہیں؛ پس شادی کے گواہ دولہا  کے والد اور بھائی،  یا کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔

 البتہ جہاں اعلانیہ نکاح نہ ہو، صرف گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا جارہاہو، وہاں والد یا بیٹے کو شادی کا گواہ نہ بنانا بہتر ہے، گو اس صورت میں بھی شرعاً  نکاح صحیح ہوجائے گا، البتہ اگر (خدانخواستہ) اختلاف ہوجائے  تو عدالت میں نکاح ثابت کرتے ہوئے باپ کی بیٹے کے حق میں اور بیٹے کی باپ کے حق میں گواہی قبول نہیں ہوتی، البتہ بھائی کی گواہی بھائی کے حق میں قبول ہوتی ہے، لہٰذا نکاح میں بھائی کو بہر صورت گواہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

’’تنویر الابصار مع الدر المختار‘‘ میں ہے:

" (وَ) شُرِطَ (حُضُورُ) شَاهِدَيْنِ (حُرَّيْنِ) أَوْ حُرٌّ وَحُرَّتَيْنِ (مُكَلَّفَيْنِ سَامِعَيْنِ قَوْلَهُمَا مَعًا) عَلَى الْأَصَحِّ (فَاهِمَيْنِ) أَنَّهُ نِكَاحٌ عَلَى الْمَذْهَبِ بَحْرٌ (مُسْلِمَيْنِ لِنِكَاحِ مُسْلِمَةٍ وَلَوْ فَاسِقَيْنِ أَوْ مَحْدُودَيْنِ فِي قَذْفٍ أَوْ أَعْمَيَيْنِ أَوْ ابْنَيْ الزَّوْجَيْنِ أَوْ ابْنَيْ أَحَدِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) بِالِابْنَيْنِ. "

(الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار، كتاب النكاح، (ص: 178)، ط/ دار الكتب العلمية، بيروت)

تحته في رد المحتار:

" (قَوْلُهُ: وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) أَيْ بِالِابْنَيْنِ أَيْ بِشَهَادَتِهَا، فَقَوْلُهُ: بِالِابْنَيْنِ بَدَلٌ مِنْ الضَّمِيرِ الْمَجْرُورِ، وَفِي نُسْخَةٍ لَهُمَا أَيْ لِلزَّوْجَيْنِ، وَقَدْ أَشَارَ إلَى مَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ الْفَرْقِ بَيْنَ حُكْمِ الِانْعِقَادِ، وَحُكْمِ الْإِظْهَارِ أَيْ يَنْعَقِدُ النِّكَاحُ بِشَهَادَتِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ بِهَا عِنْدَ التَّجَاحُدِ وَلَيْسَ هَذَا خَاصًّا بِالِابْنَيْنِ كَمَا قَدَّمْنَاهُ. "

(رد المحتار على الدر المختار، كتاب النكاح، (3/ 24)، ط/ دار الفكر، بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507100881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں