بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد رخصتی میں بلا وجہ تاخیر کرنا


سوال

میں نے اپنی بیٹی کا نکاح کروایا ہے، اور لڑکے والے جلد رخصتی کرنا چاہتے ہیں، جبکہ میری بیوی کی خواہش ہے کہ رخصتی دو سال بعد ہو، وہ میری بات نہیں مان رہی ہے، اور میرا بیٹا بھی جلد رخصتی پر راضی نہیں ہے، گھر کا ماحول اچھا نہیں ہے۔

کیا رخصتی میں تاخیر کرنا چاہیئے، جبکہ جلدی رخصتی کرنے میں بہتری بھی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح اور رخصتی کے درمیان ایسی کوئی مدت شریعتِ مطہرہ نے مقرر نہیں کی ہے کہ جس سے تاخیر حرام ہو،  البتہ نکاح ہونے کے بعد   رخصتی میں بلا وجہ تاخیر  کرنے سے حتی الامکان  بچنا چاہیے، کیوں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم معاشرے کو بے حیائی اور اخلاقی پراگندگی سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک طرف مسلمان نوجوانوں کو نکاح کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے نوجوانو! تم میں سے جو بیوی کی ذمہ داری اٹھانے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ نکاح کرلے، اس لیے کہ یہ بد نگاہی سے حفاظت کا ذریعہ اور اس میں شرم گاہ کی حفاظت ہے۔

دوسری طرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو  لڑکی  کا اچھا رشتہ مل جانے کے بعد شادی میں تاخیر کرنے سے منع فرما کر امت کو تعلیم دی ہے کہ جب اچھا رشتہ مل جائے تو نکاح و رخصتی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ  جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) بیان کئے ہیں،  وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر (مثلاً  شوہر کے پاس بیوی کی رہائش کا انتظام نہ ہو، یا لڑکی کم سنی کی وجہ سے شوہر کے قابل نہ ہوئی ہو،  وغیرہ) کی بنا  پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہے،  جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جب  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے  نکاح ہوا تو اس وقت  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کم تھی، جس کے سبب آپ کی رخصتی نکاح کے تین سال کے بعد ان کی کی گئی۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر رخصتی میں تاخیر کی کوئی معقول وجہ نہ ہو تو  سائل کو جلد  بیٹی کو رخصت کردینا چاہیئے،  بیوی اور بیٹے کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے جلد از  جلد رخصتی میں معاونت کرنی چاہئے ،کیونکہ بغیر شرعی عذر کے بیٹی کی رخصتی میں دو سال تک تاخیر کرنا، بہت سے مفاسد کو مستلزم  ہونے کی وجہ سے درست طریقہ  نہیں ہے۔

صحيح البخاري میں ہے:

٥٠٦٦ - "حدثنا ‌عمر بن حفص بن غياث: حدثنا ‌أبي: حدثنا ‌الأعمش قال: حدثني ‌عمارة، عن ‌عبد الرحمن بن يزيد قال: «دخلت مع علقمة والأسود على عبد الله، فقال عبد الله: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم شبابا لا نجد شيئا، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معشر الشباب، من استطاع الباءة فليتزوج؛ فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم؛ فإنه له وجاء.»"

( كتاب النكاح، باب من لم يستطع الباءة فليصم، ٧ / ٣، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ:"عبدالرحمٰن بن یزید سے مروی ہے کہ: " میں، علقمہ اور اسود (رحمہم اللہ) کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی (بوجہ غربت) طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔"

سنن الترمذی میں ہے:

" ١٧١ - حدثنا ‌قتيبة ، قال: حدثنا ‌عبد الله بن وهب ، عن ‌سعيد بن عبد الله الجهني ، عن ‌محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب ، عن ‌أبيه ، عن ‌علي بن أبي طالب أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: «يا علي،» ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا."

( أبواب الصلاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، ١ / ٢١٣،ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:"حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:  " اے علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ میں جب آجائے، او عورت (کے نکاح میں) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر) مل جائے"

عمدة القاري شرح صحيح البخاری میں ہے:

"قوله: (يا مشعر الشباب) ، المعشر هم الطائفة الذين يشملهم وصف. فالشباب معشر والشيوخ معشر، والشباب جمع شاب ويجمع أيضا على شببة وشبان بضم أوله وتشديد الباء، وذكر الأزهري أنه لم يجمع فاعل على فعلان غيره، وأصله الحركة والنشاط، وقال النووي: والشاب عند أصحابنا هو من بلغ ولم يجاوز ثلاثن سنة، وقال القرطبي: يقال له: حدث إلى ست عشرة سنة ثم شاب إلى اثنين وثلاثين، ثم كهل وكذا ذكر الزمخشري، وقال ابن شاس المالكي في الجواهر إلى أربعين، وإنما خص الشباب بالخطاب لأن الغالب وجود قوة الداعي فيهم إلى النكاح، بخلاف الشيوخ قوله: (الباءة)... وقال الجوهري: الباء مثل الباعة، لغة في الباء، ومنه سمي النكاح باء وباه، لأن الرجل يتبوء من أهله أي يستمكن منها كما يتبوأ من داره...قوله: (أغض) بمعنى الفاعل لا المفعول أي: أشد غضا. قوله: (وأحصن) أي: أشد إحصاناً له ومنعا من الوقوع في الفاحشة. قوله: (فإنه) أي فإن الصوم. قوله: (وجاء) جملة في محل الرفع على الخبرية. وفال النووي: اختلف العلماء في المراد بالباءة هنا على قولين: يرجعان إلى معنى واحد، أصحهما: أن المراد معناها اللغوي وهو الجماع، فتقدير من استطاع منكم الجماع لقدرته على مؤونته وهي مؤن النكاح فليتزوج، ومن لم يستطع الجماع لعجزه عن مؤنه فعليه بالصوم ليقطع شهوته يقطع شر منيه كما يقطعه الوجاء، وعلى هذا القول وقع الخطاب مع الشباب الذين هم مظنة شهوة النساء ولا ينفكون عنها غالبا. والقول الثاني: إن المراد هنا بالباءة مؤن النكاح، سمعت باسم ما يلازمهما، وتقديره: من استطاع منكم مؤن النكاح فليتزوج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم. قالوا: والعاجز عن الجماع لا يحتاج إلى الصوم لدفع الشهوة، فوجب تأويل الباءة على المؤن، وانفصل القائلون بالأول عن ذلك بالتقدير المذكور. انتهى. قلت: مفعول (من لم يستطع) محذوف فيحتمل أن يكون المراد به. ومن لم يستطع الباءة أو من لم يستطع التزوج، وقد وقع كل منهما صريحاً فروي الترمذي من حديث عبد الرحمن بن يزيد عن عبد الله بن مسعود، رضي الله عنه، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شباب لانقدر على شيء فقال: يا معشر الشباب عليكم بالباءة فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج. فمن لم يستطع منكم الباءة فعليه بالصوم فإن الصوم له وجاء. وروي الإسماعيلي من حديث الأعمش: من استطاع منكم أن يتزوج فليتزوج، ويؤيده رواية النسائي: من كان ذا طول فلينكح، والحمل على المعنى الأعم أولى بأن يراد بالباءة القدرة على الوطء ومؤن التزوج".

(كتاب فضائل القرآن، باب: من لم يستطع الباءة فليصم، ٢٠ / ٦٨، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں