نکاح اور رخصتی میں معقول وجہ سے ۲-۳ سال کی تاخیر کرنا درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں نکاح ہونے کے بعد حتی الامکان رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر (مثلاً رہائش وغیرہ کا انتظام نہ ہونے ) کی بنا پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہےلیکن بہت زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
سنن الترمذی میں ہے:
"حدثنا قتيبة قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له: " يا علي، ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئا."
باب ما جاء في تعجيل الجنازة، ج: 3، ص: 379، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي۔مصر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411100318
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن