بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد رخصتی میں تاخیر كا حكم


سوال

نکاح اور رخصتی میں معقول وجہ سے ۲-۳ سال کی تاخیر کرنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نکاح ہونے کے بعد حتی الامکان رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر (مثلاً رہائش وغیرہ کا انتظام نہ ہونے ) کی بنا  پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہےلیکن بہت زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

سنن الترمذی میں ہے:

"حدثنا قتيبة قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له: " ‌يا ‌علي، ‌ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئا."

‌‌باب ما جاء في تعجيل الجنازة، ج: 3، ص: 379، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي۔مصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں