بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد بات چیت کرنا اور والد کی غیر موجودگی میں نکاح کا حکم


سوال

1-  خالہ کی بیٹی سے رشتہ ہوا ہے، لیکن نکاح نہیں پڑھایا گیا، لڑکی کے والد نے منہ سے کہا کہ یہ لڑکی تمہاری ہوئی اور ہم نے انگوٹھی پہنائی، لڑکی کے والد کے بغیر ان کے بھائی، بہن، بھابی وغیرہ کی موجودگی میں نکاح کرنا کیسا ہے شرعی اعتبار سے؟

2- لڑکے کی طرف سے کتنے گواہان ہونے  چاہییں؟  لڑکی کے  2  بھائی لڑکے  کی گواہی دے سکتے ہیں کہ نہیں؟ نکاح کس طرح پڑھایا جائے کہ بعد میں لڑکی کے ساتھ فون پر بات کرنے یا سامنے پیش آنے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا؟

جواب

1,2- صورتِ  مسئولہ میں   چوں کہ لڑکی کے والد صاحب نے اپنی بیٹی کا رشتہ زبانی طور پر اس لڑکے کو دے دیا ہے  اور اب نکاح کرانے کے لیے ان کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے،  والد صاحب کی غیر موجودگی میں بھی دوگواہوں  (اگرچہ وہ لڑکی کے بھائی ہوں) کی موجودگی میں بھائی وغیرہ کے سامنے نکاح پڑھانے سے نکاح درست ہو جائے گا، اگر لڑکی کے والد کا انتظار نہ کیا جاسکتا ہو تو لڑکی کے بھائیوں وغیرہ کی موجودگی میں نکاح بہتر ہوگا،  اور  (نکاح کے بعد) لڑکے کا لڑکی سے ملاقات کرنا اور بات چیت کرنا جائز ہوجائےگا، مگرمشاہدہ میں آیا ہےکہ  رخصتی سے پہلے ایسا کرنا بسااوقات  بڑے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔  لہٰذا بہتر یہ ہے کہ  تاخیر کی کوئی معقول وجہ نہ ہو تو رخصتی بھی  ساتھ ہی کر لی جائے؛  تاکہ دونوں کی ملاقات  میں کوئی قباحت نہ ہو، البتہ والد کی موجودگی میں نکاح کرنا زیادہ بہتر  ہے۔

جیساکہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(و شرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر) ليتحقق رضاهما (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر و حرتين ( مكلفين سامعين قولهما معاً) علی الأصح.

(فاهمين) أنه نكاح علی المذهب، بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أو أعمين ..." الخ.

(شامي: كتاب النكاح، ٣/ ٢١- ٢٤، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں