بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح اس نیت سے کرنا کہ بعد میں طلاق دے دی جائے


سوال

اگر کوئی لڑکا باہر ملک جاتا ہے وہاں پرکسی عورت سے اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ کچھ عرصے بعد اس کو طلاق دے دوں گا، مثلاً تعلیم مکمل ہونےپر یا بزنس مکمل ہونے پر جب تک اس ملک میں مقیم ہوں، اس صورت میں اس لڑکی کے ساتھ دھو کہ ہوگا یا نہیں؟ اور یہ نکاح متعہ میں شمار ہوگا یا نہیں؟جبکہ لڑکے ذہن  میں وقت مقرر ہے کہ فلاں وقت میں اس کو طلاق دوں گا ، اس طرح مذکورہ وقت بدل بھی سکتا ہے۔

 اگر لڑکی کسی شخص سے ان شرائط کے ساتھ نکاح کرے کہ؛

1۔ہم آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ کے  لیے نہ ہو۔

2۔اس لڑکی سے کہنا ہے کہ میں طلاق کا عادی ہوں اور میں جلدی طلاق دے سکتا ہوں۔

3۔ہم آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں ، جب چاہیں ہم آپس کی رضامندی سے ایک دوسرے کو طلاق دے سکتے ہیں۔

جواب

صورت ِمسئولہ  میں جو نکاح کی صورت بیان کی گئی ہے وہ نکاحِ مسیار کے زمرے میں آتی ہے ، نکاحِ مسیار کی صورت یہ ہے کہ مرد حالتِ سفر یا ملازمت کےلیے  کسی دوسرے ملک میں جائے اور  اسے وہاں اپنی طبعی  خواہش پوری کرنے   کی حاجت ہو تو طلاق کی نیت سے نکاح کرلے، یعنی دل میں یہ سوچے کہ جب میں سال دو سال بعد واپس  چلا جاؤں گا تو طلاق دے دوں گا، نکاح کے بوجھ کو مرد پر کم سے کم ڈالنے  کی خاطر عورت نان نفقہ اور ساتھ رہنے کے حق وغیرہ سے دست بردار ہوجاتی ہے،لہذابیوی اپنے میکے میں رہتی  ہے، اورمرد کو جب موقع ملتا ہے وہ  بیوی سے اس کے میکے آکر  یا کچھ وقت کے لیے ساتھ کسی دوسری جگہ لے جاکر طبعی تقاضہ پورا کرتا ہے،اس عمل کو جواز کا جامہ پہنا نے کےلیے ظاہری طور پر  نکاح کی شرائط و ارکان یعنی  ایجاب وقبول،گواہ اور مہروغیرہ کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔

 مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے نکاحِ مسیارجائز نہیں ہے:

1۔ نکاحِ مسیار کو اگرچہ نکاح کا نام دیا جاتا ہے، لیکن اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد پورا کرنا نہیں  ہے، بلکہ اصل مقصد ایک متعین وقت تک اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے جو نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے۔

2۔ اس قسم کا نکاح معنی"نکاحِ  موقت"ہے۔

3۔  اس قسم کے عقد  میں خوا تین کی تذلیل ہے، کیوں کہ اس تعلق کا مقصد صرف اور صرف وقتِ متعینہ تک اپنی خواہش کی تکمیل ہے، وقتِ مقررہ کے بعد عورت کو مستعمل اشیاء کی طرح پھینک دیا جائے، عورت کو اس قسم کی تذلیل سے محفوظ رکھنے  کے لیے شریعت نے پہلے شوہر کے لیے بیوی کو حلال کرنے کےلیے طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرنے کو مکروہِ تحریمی (ناجائز) قرار دیا ہے۔

4۔اس قسم کی شادی میں  خاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ نہ میاں بیوی کی ایک ساتھ ہمیشہ کےلیے  رہائش ہوتی ہے، اور نہ ہی دونوں  میں مکمل مودت و محبت ہوتی ہے جوکہ نکاح کا لازمی جز اور مقصد ہے ۔

5۔اس رشتے اور تعلق میں دوام نہیں ہے، بلکہ  أبغض المباحات "طلاق " دینے کی نیت ہے۔

ابوداؤد میں ہے:

"حدثنا كثير بن عبيد، حدثنا محمد بن خالد، عن معرف بن واصل، عن محارب بن دثار، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق۔"

(314/1، کتاب الطلاق، باب فی کراھیۃ الطلاق، ط:رحمانیۃ)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"ثم يتعلق بهذا العقد أنواع من المصالح الدينية والدنيوية من ذلك حفظ النساء والقيام عليهن والإنفاق، ومن ذلك صيانة النفس عن الزنا، ومن ذلك تكثير عباد الله تعالى وأمة الرسول صلى الله عليه وسلم وتحقيق مباهاة الرسول صلى الله عليه وسلم بهم كما قال: «تناكحوا تناسلوا تكثروا فإني مباه بكم الأمم يوم القيامة» وسببه تعلق البقاء المقدور به إلى وقته فإن الله تعالى حكم ببقاء العالم إلى قيام الساعة وبالتناسل يكون هذا البقاء."

 (کتاب النکاح،ج:4،ص:192،ط:دار المعرفة،بیروت)

ہدایہ میں ہے:

"ونكاح المتعة باطل" وهو أن يقول لامرأة أتمتع بك كذا مدة بكذا من المال وقال مالك هو جائز لأنه كان مباحا فيبقى إلى أن يظهر ناسخه قلنا: ثبت النسخ بإجماع الصحابة رضي الله عنهم وابن عباس رضي الله عنهما صح رجوعه إلى قولهم فتقرر الإجماع "والنكاح المؤقت باطل" مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام وقال زفر هو صحيح لازم لأن النكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة.

ولنا أنه أتى بمعنى المتعة والعبرة في العقود للمعاني ولا فرق بين ما إذا طالت مدة التأقيت أو قصرت لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة وقد وجد". 

(کتاب النکاح،ج:2،ص:333،ط:مکتبه رحمانیه)

عنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

"( والنكاح المؤقت باطل مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام ) .

والذي يفهم من عبارة المصنف في الفرق بينهما شيئان : أحدهما وجود لفظ يشارك المتعة في الاشتقاق كما ذكرنا آنفا في نكاح المتعة .

والثاني شهود الشاهدين في النكاح الموقت مع ذكر لفظ التزويج أو النكاح وأن تكون المدة معينة ( وقال زفر هو صحيح لازم ) لأن التوقيت شرط فاسد لكونه مخالفا لمقتضى عقد النكاح ، والنكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة ( ولنا أنه أتى بمعنى المتعة ) بلفظ النكاح لأن معنى المتعة هو الاستمتاع بالمرأة لا لقصد مقاصد النكاح وهو موجود فيما نحن فيه لأنها لا تحصل في مدة قليلة ( والعبرة في العقود للمعاني ) دون الألفاظ ؛ ألا ترى أن الكفالة بشرط براءة الأصيل حوالة والحوالة بشرط مطالبة الأصيل كفالة۔"

(ج:3،ص:248، ط:دار الفكر )

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وبطل نكاح متعة، ومؤقت) قال في الفتح: قال شيخ الإسلام في الفرق بينهما أن يذكر الوقت بلفظ النكاح والتزويج وفي المتعة أتمتع أو أستمتع. اهـ.

يعني ما اشتمل على مادة متعة. والذي يظهر مع ذلك عدم اشتراط الشهود في المتعة وتعيين المدة، وفي المؤقت الشهود وتعيينها، ولا شك أنه لا دليل لهم على تعيين كون المتعة الذي أبيح ثم حرم هو ما اجتمع فيه مادة (م ت ع) للقطع من الآثار بأنه كان أذن لهم في المتعة، وليس معناه أن من باشر هذا يلزمه أن يخاطبها بلفظ أتمتع ونحوه لما عرف أن اللفظ يطلق ويراد معناه، فإذا قيل تمتعوا فمعناه أوجدوا معنى هذا اللفظ،، ومعناه المشهور أن يوجد عقدا على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته، بل إلى مدة معينة ينتهي العقد بانتهائها أو غير معينة بمعنى بقاء العقد ما دام معها إلى أن ينصرف عنها فلا عقد، فيدخل فيه ما بمادة المتعة والنكاح المؤقت أيضا فيكون من أفراد المتعة، وإن عقد بلفظ التزوج وأحضر الشهود. اهـ. ملخصا وتبعه في البحر والنهر، ثم ذكر في الفتح أدلة تحريم المتعة وأنه كان في حجة الوداع وكان تحريم تأبيد لا خلاف فيه بين الأئمة وعلماء الأمصار إلا طائفة من الشيعة ونسبة الجواز إلى مالك كما وقع في الهداية غلط، ثم رجح قول زفر بصحة المؤقت على معنى أنه ينعقد مؤبدا ويلغو التوقيت؛ لأن غاية الأمر أن المؤقت متعة وهو منسوخ، لكن المنسوخ معناها الذي كانت الشريعة عليه وهو ما ينتهي العقد فيه بانتهاء المدة، فإلغاء شرط التوقيت أثر النسخ، وأقرب نظير إليه نكاح الشغار وهو أن يجعل بضع كل من المرأتين مهراً للأخرى، فإنه صح النهي عنه وقلنا: يصح موجباً لمهر المثل لكل منهما فلم يلزمنا النهي، بخلاف ما لو عقد بلفظ المتعة وأراد النكاح الصحيح المؤبد فإنه لا ينعقد، وإن حضره الشهود؛ لأنه لايفيد ملك المتعة كلفظ الإحلال فإن من أحل لغيره طعاما لايملكه فلم يصح مجازاً عن معنى النكاح كما مر. اهـ ملخصاً.

(قوله: وإن جهلت المدة) كأن يتزوجها إلى أن ينصرف عنها كما تقدم ح (قوله: أو طالت في الأصح) كأن يتزوجها إلى مائتي سنة وهو ظاهر المذهب وهو الصحيح كما في المعراج؛ لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة، بحر". 

(کتاب النکاح،ج:3،ص:51،ط:سعید)

فقط وللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں