بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح ہوجانے کے بعد نکاح کو خفیہ رکھنا


سوال

میرے شوہر نے مجھ سے پچھلے سال اپنی پہلی بیوی اور اپنے گھر والوں کے علم میں لائے بغیر گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا اور تا حال اس کا اعلان نہیں کیا جبکہ میری فیملی اور خاندان کو اس نکاح کے بارے میں علم ہے۔ شوہر کی طرف سے اس کو خفیہ رکھنے کی صورت میں کیا یہ نکاح درست ہے؟ 

جواب

شریعتِ مطہرہ نے لڑکی اور لڑکے دونوں اورخصوصاً لڑکی کی حیاء، اخلاق، معاشرت کا خیال رکھتے ہوئے ولی (والدین) کے ذریعے نکاح کا نظام رکھا ہے کہ نکاح ولی کے ذریعے کیا جائے، یہی شرعاً، اخلاقاًاور معاشرۃً  پسندیدہ طریقہ ہے، اسی میں دینی، دنیوی اور معاشرتی فوائد ہیں، لیکن اگر کوئی نادان لڑکی یا لڑکا جو کہ عاقل بالغ ہیں ان فوائد اور پسندیدہ عمل کو ٹھکراکر خود ہی  والدین کو لاعلم رکھ کر شرعی گواہوں کی موجودگی میں  نکاح کریں تو فقہ حنفی کے مطابق نکاح ہوجاتا ہے، دونوں میاں بیوی بن جاتے ہیں،لیکن یہ نکاح پسندیدہ طریقہ پر نہیں ہوتا۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ نکاح ہوگیا ہے، اور اب شوہر کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے گھر والوں کو اعتماد میں لےکر ان کو اس نکاح سے آگاہ کردےتاکہ بعد میں مسائل پیدا نہ ہوں ۔تاہم خفیہ رکھنے کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔

الہدایہ مع فتح القدیر میں ہے:

"قال (ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف) اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لا نكاح إلا بشهود»."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:199، ط:بولاق مصر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة.

(قوله: ويندب إعلانه) أي إظهاره والضمير راجع إلى النكاح بمعنى العقد لحديث الترمذي «أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف» فتح."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:8، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں