بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح ثانی پر پہلی بیوی کی رضامندی اور والد صاحب کی ناراضگی کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ عبداللہ تقریبا چودہ سال سےشادی شدہ ہے،اورنرینہ اولاد کے نعمت سے محروم ہے، سوائے ایک بیٹی کے کوئی اولاد نہیں ہے،اب عبداللہ دوسری شادی کرنا چاہتاہے،وہ اپنے الگ گھر میں رہتاہے،اور صاحب استطاعت بھی ہے،اور والدین کے ہر قسم کے حقوق کا خیال بھی رکھتاہے،لیکن دوسری شادی میں بڑی رکاوٹ والد صاحب ہے،والدہ اور بیوی بھی راضی ہے،ایسی صورت اگر عبداللہ دوسرا شادی کرےتو والد صاحب کی نافرمانی پر وہ عنداللہ مجرم ہے کہلائے گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں مرد کو بیک وقت چار عورتوں کو نکاح میں رکھنے کی اجازت ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ (النساء:3)

اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے.( بیان القرآن )

نیزاس آیت سے واضح ہوا کہ مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ ایک سے زائد بیویوں کےدرمیان نان نفقہ،لباس اور شب باشی میں برابری پر قادر ہو،نیز  دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں. "سنن ابی داود"  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل" ( سنن أبي داؤد 3 / 469)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی.

مذکورہ بالا تفصیل کے پیش نظر صورتِ مسئولہ میں اگرسائل دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتاہے،اور دوسری شادی کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا کرسکتاہے تواس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہے، باقی اس معاملہ میں والد صاحب کا رکاوٹ ڈالنا درست نہیں ہے،ان کی یہ ناراضگی بے جاہے،انہیں چاہیے کہ وہ اس دوسری شادی میں رکاوٹ نہ ڈالیں، سائل اپنے والد کو ادب و احترام سے سمجھاتا رہے،بے ادابی اور گستاخی نہ کرے، اور  والد کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرے لیکن اگر وہ کسی صورت میں آمادہ نہ ہو تو اگر   سائل اپنی ضرورت کی بناء پر دوسرا نکاح کرلیتا ہے تو یہ والد کی نافرمانی میں شمار نہ ہوگا۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "النكاح من سنتي، فمن لم يعمل بسنتي فليس مني، وتزوجوا، ‌فإني ‌مكاثر بكم الأمم، ومن كان ذا طول فلينكح، ومن لم يجد فعليه بالصيام، فإن الصوم له وجاء."

(أبواب النكاح، باب ماجاء في فضل النكاح، رقم الحديث:1846، ج:3، ص:54، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ :ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : "نکا ح میری سنت ہے جومیری سنت پرعمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ، نکاح کرواس لیے کہ میں تمہاری کثرت کے سبب دوسری امت پرفخرکروں گا ، اورجوخوش حال ہو اسے چاہیےکہ نکاح کرے ،اور جونکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اسے چاہیئے کہ روزہ رکھے ،اس لیے کہ روزہ اس کے لیے بمنزلہ ڈھال کے ہے ، اور روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے ۔ 

مصنف عبدالرزاق میں ہے:

" عن سعيد بن أبي هلال: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: تناكحوا، تكثروا، فإني أباهي بكم الأمم يوم القيامة ."

(كتاب النكاح، باب وجوب النكاح وفضله، رقم الحديث:11232، ج:6، ص:247، ط:دار التأصيل)

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا أحدثكم بأكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال: وجلس وكان متكئا، قال: وشهادة الزور أو قول الزور، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت".

(وعقوق الوالدين) بضم العين المهملة مشتق من العق وهو القطع والمراد به صدور ما يتأذى به الوالد من ولده من قول أو فعل إلا في شرك أو معصية ما لم يتعنت الوالد، وضبطه ابن عطية بوجوب طاعتهما في المباحات فعلا وتركا، واستحبابها في المندوبات وفروض الكفاية كذلك، ومنه تقديمهما عند تعارض الأمرين، وهو كمن دعته أمه ليمرضها مثلا بحيث يفوت عليه فعل واجب إن أستمر عندها ويفوت ما قصدته من تأنيسه لها وغير ذلك أن لو تركها وفعله وكان مما يمكن تداركه مع فوات الفضيلة كالصلاة أول الوقت أو في الجماعة."

(باب ما جاء في عقوق الوالدين، ج:6، ص:23، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:ایک بالغ لڑکا غیر شادی شدہ ایک لڑکی سے عقد کرنا چاہتا ہے،مگر وہاں پر والد صاحب نے اس کے لیے شادی کرنے سے انکار کیا کہ کچھ ان بن ہوگئی، حالانکہ پہلے وہیں رشتہ کیا تھا،پھردوسری جگہ جہاں لڑکے کو آٹھ ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا گیاتھا،بات کرلی، لڑکے نے ان آٹھ ہزار روپوں کو ٹھکرا کر پہلی جگہ اپنی مرضی سے شادی کرلی، جب کہ والد صاحب سے اصرار و ضد کی وجہ سے ناراضگی ہوگئی، تو مذکورہ صورت میں لڑکا والد صاحب کا نافرمان ہوگا کہ نہیں، اگر نہیں تو کیوں، اگر ہوگا تو کیوں؟

الجواب حامدا و مصليا:

آٹھ ہزار روپے لڑکے کے لیے شرط  قرار دینا غلط ہے،ناجائز ہے،ناجائز کام میں والد کی اطاعت نہیں، اگر لڑکے نے اس غلط رویے سے بچنے کے لیے اپنی شادی خود کرلی تو وہ نافرمان نہیں ہوا۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، باب حقوق الوالدین،ج:19،ص:47، ط: الفاروق) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں