نکاح اور رخصتی کے درمیان زیادہ سے زیادہ کتنا وقت ہوتا ہے؟ اور جب نکاح ہو جائے اور رخصتی نہ ہوئی ہو تو ہمبستری کے لئے کیا حکم ہے؟اور ہمبستری کس جگہ کر سکتے ہیں؟
1۔واضح رہے کہ نکاح کے بعدرخصتی کے لیے کوئی مخصوص مدت شریعت نے متعین نہیں کی ، اور نہ ہی تاخیرسے نکاح پر کوئی اثر پڑتاہے۔تاہم اگر رخصتی میں تاخیر،کسی شرعی عذر کی بناء پر ہے مثلاً(مثلاً رہائش کا انتظام نہ ہونے ،یا اس قسم کے کسی اور عذر کی بناء پر ) ،تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔
2۔ نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں کی حیثیت ایک دوسرے کے لیے شوہر اور بیوی کی ہے، چاہے رخصتی نہ ہوئی ہو، اس لیےرخصتی سے پہلے شوہر کو حق نہیں پہونچتا کہ بیوی کو حق زوجیت کی ادائیگی کا اصرار کرے ۔ البتہ اگر باہمی رضامندی ہو تو شرعاً ان کا کسی قسم کا تعلق رکھنا منع نہیں ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ رخصتی سے پہلے ایسے تعلقات سے پرہیز کیا جائے جو خاندان اور معاشرے میں نکاح سے پہلے معیوب سمجھے جاتے ہوں، کیوں کہ بعض اوقات رخصتی سے پہلے بے تکلف تعلقات سے بہت سے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں؛ لہذا سائل کو چاہیے کہ فی الحال اس سے پرہیز کرے اور اپنی رخصتی کے حوالے سے جلدی کی کوشش کرے ۔
صحیح البخاری میں ہے:
" حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال: حدثني عمارة، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: دخلت مع علقمة، والأسود على عبد الله، فقال عبد الله: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم شباباً لانجد شيئاً، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معشر الشباب، من استطاع الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء."
(كتاب النكاح، باب:من لم يستطع۔۔۔۔۔، ج:5، ص:1950، رقم:4779، ط:دار اليمامة۔دمشق)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144503103041
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن