بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح نہ ہو رہا ہو تو کیا کیا جائے ؟


سوال

میری عمر 19 سال ہے ،میرا شادی کرنے کو بہت دل کرتا ہے مگر میں مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں ،اگر دنیا والوں کو دیکھا جائے تو میری عمر اور فیملی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے میری شادی نہیں ہونی چاہیے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو دیکھا جائے تو کوئی حدیث ملتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  غریب صحابہ کی شادی اس وقت جب ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا کی،اور بعض کو شادی کرنے کی ترغیب بھی دی ، اس زمانے کے حساب سے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟کیا یہ حدیث اس زمانے کے لیے بھی ہے ؟اگر نہیں ہے تو اس کا کیا حل ہے ؟میں اپنی خواہشات پر کنٹرول نہیں رکھ پا رہا ۔اب مجھے اپنے والدین پر بھی غصہ آتا ہے کہ اگر وہ امیر ہوتے تو شاید میری آج شادی ہو جاتی ۔مجھے کیا کرنا چاہیے ؟میں کیسے اپنی خواہشات پر کنٹرول رکھوں ؟

جواب

بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کی مناسب جگہ پر شادی کی فکر وکوشش کرنا والدین کی ذمہ داری بنتی ہے، البتہ شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ والدین کے ذمہ نہیں ہے، اس کا انتظام لڑکے کو خود کرنا ہوگا، اور اگر شادی کی فضول و غیر ضروری رسموں  اور فضول خرچی سے بچاجائے تو  شادی کا خرچہ اتنا زیادہ اور مشکل نہیں ہے جتنا آج کل  معاشرے میں سمجھ لیا گیا ہے، اس لیے اگر والدین کی استطاعت ہو تو ان کو بطورِ تبرع یہ خرچہ اٹھانا چاہیے، یہ ان کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوگا، لیکن اگر والدین کسی وجہ سے بیٹے کی شادی کا خرچہ نہ اٹھاسکیں تو بیٹے کے گناہ میں مبتلا ہونے کا وبال ان پر نہیں ہوگا، بیٹا خود کوشش کر کے حلال مال کمانے کی کوشش کرے؛ تاکہ شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ اٹھاسکے، اور جب تک اس کا انتظام نہ ہوسکے تو گناہ سے بچنے کے لیے حدیث میں روزہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔نیز بدنگاہی کے تمام  ذرائع سے بھی پرہیز کرنے کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں آپ اپنے والدین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ اپنی شادی کے سلسلہ میں متوجہ کرسکتے ہیں، اور آپ خود کماکر گھر بسانے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو والدین کو اس سے بھی آگاہ کردیا جائے تاکہ ان کے لیے نکاح کا فیصلہ کرنا آسان ہو۔

اس زمانے میں بھی رسول اللہﷺکے ارشادات و احکامات  ایسے ہی قابل تعمیل ہیں، جیساکہ آپ ﷺکی حیات مبارکہ میں تھے ، البتہ ساتھ ہی احادیث میں رسول اللہ ﷺنے بیوی کے نان و نفقہ اور اس کی رہائش کے انتظامات کی بھی ہدایات دی ہیں، اس لیے اگر آپ کے والدین فضول خرچی سے اجتناب کرتے ہوئے سادگی کے ساتھ اپنی استطاعت کے موافق دین داری کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کا نکاح کروادیں تو یہ ان کی جانب سے احسان کا معاملہ ہوگا، اور اگر والدین اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو سائل خود محنت کرکے جب نان و نفقہ اور رہائش کے انتظام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو والدین کے ساتھ مشاورت سے نکاح کا اہتمام کرلے۔ البتہ جب تک نکاح نہیں ہوجاتا اس وقت تک گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتو کثرت سے روزے رکھنے کا اہتمام کرے ،ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے عفت کی بھی دعا مانگتا رہے ، ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ گناہوں سے محفوظ رکھیں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ  خود بیوی کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں تو والدین کو راضی کرکے رشتہ کرنے کی کوشش کیجیے، باقی اگر کسی وجہ سے  نکاح کی کوئی ترتیب نہیں بن رہی ہو اور  شہوت کا غلبہ ہوتو  آپ کو چاہیے تسلسل کے ساتھ  روزے رکھتے رہیں،   بدنظری سے پرہیز کریں اور اپنے آپ کو مفید مصروفیات میں مشغول رکھیں، کثرت سے اللہ تعالی کے ذکر کی عادت بنائیں۔

حديث شريف ميں هے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ‌معشر ‌الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء."

(مشكوة المصابيح، كتاب النكاح، الفصل الأول، ج:2، ص:927، طبع: المكتب الاسلامي)

ترجمہ :"حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے  فرمایا:اے جوانوں کی جماعت!! تم میں سے جس میں نکاح کرنے کی استطاعت ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے کیوں  کہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کرلینا چاہیے ؛ کیوں کہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔"

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد،ج:1،ص:562، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں