بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا حکم


سوال

کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے یا  آدمی پہلی بیوی کو بتائے بغیر بھی دوسری شادی کر سکتا ہے؟

جواب

ایک آدمی کو شریعتِ مطہرہ میں چار تک عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اور یہ پہلی، دوسری یا تیسری بیوی کی اجازت و رضامندی پر موقوف نہیں ہے، پہلی بیوی کی اجازت کے  بغیر بھی دوسری شادی کی جا سکتی ہے،  تاہم مصلحتاً مناسب ہے کہ پہلی بیوی کی ذہن سازی کرکے ان کو مطمئن کیا جائے ؛تاکہ دوسری بیوی کے آنے پر شوہر کو ناخوش گوار حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

لیکن واضح رہے کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا ضروری ہے، کسی کے حقوقِ واجبہ میں کوتاہی کرنا جائز نہیں ہے، اگر شوہر کسی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کے حقوق واجبہ میں کوتاہی کرے گا تو اس کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، اور اگر دوسری شادی کرنے سے پہلے شوہر کو اس بات کا یقین یا غالب گمان ہو کہ وہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم نہیں کر سکے گا تو دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وأما قوله تعالى: {مثنى وثلاث ورباع} فإنه إباحة للثنتين إن شاء وللثلاث إن شاء وللرباع إن شاء، على أنه مخير في أن يجمع في هذه الأعداد من شاء; قال: فإن خاف أن لا يعدل اقتصر من الأربع على الثلاث، فإن خاف أن لا يعدل اقتصر من الثلاث على الاثنتين، فإن خاف أن لا يعدل بينهما اقتصر على الواحدة."

(سورة اآل عمران، مدخل، ج:2، ص:69، ط: دار الكتب العلمية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «إذا كانت ‌عند ‌الرجل ‌امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط» . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي.

(امرأتان) : أي: مثلا (فلم يعدل فيهما جاء يوم القيامة وشقه) : أي: أحد جنبيه وطرفه (ساقط) : قال الطيبي: أي نصفه مائل، قيل: بحيث يراه أهل العرصات، ليكون هذا زيادة له في التعذيب، وهذا الحكم غير مقصور على امرأتين فإنه لو كانت ثلاث أو أربع كان السقوط ثابتا."

(كتاب النكاح، باب القسم، ج:5، ص:2115، رقم:3236، ط:دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(، ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك.

(قوله: ومكروها) أي تحريما بحر.

(قوله: فإن تيقنه) أي تيقن الجور حرم؛ لأن النكاح إنما شرع لمصلحة تحصين النفس، وتحصيل الثواب، وبالجور يأثم ويرتكب المحرمات فتنعدم المصالح لرجحان هذه المفاسد بحر وترك الشارح قسما سادسا ذكره في البحر عن المجتبى وهو الإباحة إن خاف العجز عن الإيفاء بموجبه. اهـ. أي خوفا غير راجح، وإلا كان مكروها تحريما؛ لأن عدم الجور من مواجبه."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:7، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں