بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد تعلقات قائم نہ کرنے کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا


سوال

 اگر شادی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہی رہیں اور ان میں تعلقات سرے سے قائم نہ ہوں تو  اس کا نکاح پر کوئی اثر پڑتا ہے؟  کیا بیوی اس وجہ سے خلع لے سکتی ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر شادی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہے ہوں اور دونوں نے تعلقات  قائم نہ کیے ہوں تو نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ نکاح بدستور قائم ہے۔

2۔صورتِ مسئولہ میں  میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ آپس میں نباہ کی کوشش کریں اور ایک دوسرے سے تعلقات قائم کریں،اس لیے کہ بغیر شرعی عذر کے بیوی کا خلع کا مطالبہ کرنا گناہ ہے،البتہ اگر دونوں کے درمیان نبھاؤ کی صورت ممکن نہ ہو اور شوہر بلاعوض طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو ،تو   بیوی اپنے شوہر  سے کچھ مال کے عوض  اس کی رضامندی سےخلع   لے سکتی،لیکن  شرعاً خلع صحیح ہونے کے لیے شوہر کا اسے قبول کرنا ضروری ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أبي أسماء، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، ‌فحرام ‌عليها رائحة الجنة."

(سنن ابی داؤد،كتاب الطلاق، باب الخلع،ج:2،ص:268،ط:المكتبة العصرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية

(وشرطه) شرط الطلاق(وحكمه) وقوع الطلاق البائن كذا في التبيين. و تصح نية الثلاث فيه. و لو تزوجها مرارًا و خلعها في كل عقد عندنا لايحل له نكاحها بعد الثلاث قبل الزوج الثاني، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."

(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:1،ص:488،ط؛دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و أما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال: خالعتك و لم يذكر العوض و نوى الطلاق فإنه يقع."

(کتاب الطلاق،باب ا لخلع،ج:3،ص:441 ،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں