بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے بیوی کے حقوق


سوال

اگر نکاح ہو جائے اور رخصتی نہ ہو تو مرد کا بیوی کی کونسی ضروریات پوری کرنا ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں شرعی  نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں شوہر اور بیوی بن جاتے ہیں ،اور ایک دوسرے کے لیے بالکلیہ حلال ہوجاتے ہیں ، ایک دوسرے کی حالت بھی معلوم کرسکتے ہیں اوردونوں ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں ،البتہ اگر رخصتی سے پہلے یہ امور معاشرتی طور پر برے سمجھے جاتے ہوں تو ان سے اجتناب کرنا چاہیے، بسااوقات یہ بڑے فساد کاذریعہ بن جاتے ہیں، نیزشوہر پر بیوی کا نان ونفقہ بھی لازم ہوجاتاہے ،لیکن شوہراگر  رخصتی کا مطالبہ کرے اور لڑکی یا اس کے گھروالے رخصتی پر تیار نہ ہوں تو شوہر پر بیوی کا نان ونفقہ لازم  نہیں ہوگا۔

"البحرالرائق" میں ہے:

" (قوله : تجب النفقة للزوجة على زوجها والكسوة بقدر حالهما ) أي الطعام والشراب بقرينة عطف الكسوة والسكنى عليها، والأصل في ذلك قوله تعالى: ﴿لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ﴾ [الطلاق: 7] وقوله تعالى: ﴿وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [البقرة: 332] وقوله عليه الصلاة والسلام في حجة الوداع: «ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف»، وعليه إجماع الأمة؛ لأن النفقة جزاء الاحتباس، فكل من كان محبوساً بحق مقصود لغيره كانت نفقته عليه''۔

(باب النفقہ،الزوجیۃ،ص:188،ج:4،ط:دارالمعرفہ)

"المحیط البرہانی" میں ہے:

''والمعنى في ذلك أن النفقة إنما تجب عوضاً عن الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، وبدونه لا يمكن إيجاب النفقة''۔

(کتاب النفقات،نفقۃ الزوجات،ج:4 ص:170،ط:دارالکتب العلمیہ)

"بدائع الصنائع" میں ہے:

''( فصل ) : وأما شرط وجوب هذه النفقة، فلوجوبها شرطان : أحدهما يعم النوعين جميعاً أعني : نفقة النكاح ونفقة العدة .

والثاني يخص أحدهما وهو نفقة العدة. أما الأول، فتسليم المرأة نفسها إلى الزوج وقت وجوب التسليم ونعني بالتسليم : التخلية، وهي أن تخلي بين نفسها وبين زوجها برفع المانع من وطئها أو الاستمتاع بها حقيقةً إذا كان المانع من قبلها، أو من قبل غير الزوج، فإن لم يوجد التسليم على هذا التفسير وقت وجوب التسليم ؛ فلا نفقة لها. وعلى هذا يخرج مسائل : إذا تزوج بالغةً حرةً صحيحةً سليمةً ونقلها إلى بيته فلها النفقة؛ لوجود سبب الوجوب وشرطه، وكذلك إذا لم ينقلها وهي بحيث لا تمنع نفسها وطلبت النفقة ولم يطالبها بالنقلة فلها النفقة ؛ لأنه وجد سبب الوجوب وهو استحقاق الحبس، وشرطه وهو التسليم على التفسير الذي ذكرنا، فالزوج بترك النقلة ترك حق نفسه مع إمكان الاستيفاء، فلا يبطل حقها في النفقة، فإن طالبها بالنقلة فامتنعت، فإن كان امتناعها بحق بأن امتنعت لاستيفاء مهرها العاجل ، فلها النفقة ؛ لأنه لا يجب عليها التسليم قبل استيفاء العاجل من مهرها ، فلم يوجد منها الامتناع من التسليم وقت وجوب التسليم''۔

(کتاب النفقہ،شرط فی وجوب النفقہ،ج:4 ص:18،ط:دار الکتب العلمیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

" (هو) عند الفقهاء (عقد يفيد ملك المتعة) أي حل استمتاع الرجل من امرأة لم يمنع من نكاحها مانع شرعي.

قوله: أي حل استمتاع الرجل) أي المراد أنه عقد يفيد حكمه بحسب الوضع الشرعي،وفي البدائع أن من أحكامه ملك المتعة وهو اختصاصالزوج بمنافع بضعها وسائر أعضائها استمتاعا أو ملك الذات والنفس في حق التمتع على اختلاف مشايخنا في ذلك".

(كتاب النكاح ،ج:3،ص:3،ط:سعيد)

فتاوی ٰمحمودیہ میں ہے :

"سوال :لڑکی کئی سال سے بالغ ہے وہ میکے میں رہتی ہے ،اخراجات شوہرسے لے سکتی ہے یانہیں ؟زید کو اخراجات دینے کا حق حاصل ہے یانہیں ؟

جواب :زیداس کو رخصت کراکراپنے مکان پر لے آئے تب اس کا نفقہ خرچہ زید کے ذمہ لازم ہو گا۔

شوہر پر نان ونفقہ تب واجب ہوگا جب کہ رخصتی میں دیر اور تعدی اس کی طرف سے ہو ،لیکن اگر رخصتی میں تعدی عورت کی طرف سے ہو نفقہ واجب نہیں ۔"

(کتاب الطلاق ،باب النفقات ،ج:13،ص:425،ط:ادارہ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں