بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نائٹی میں فجر کی نماز پڑھنے کا حکم


سوال

کیا میں نائٹی  میں فجر کی نماز پڑھ سکتی ہوں؟  نائٹی  ڈھیلی ڈھالی ہے  اور گھٹنوں سے کافی نیچے تک ہے، لیکن اس کے نیچے میں شلوار یا انڈر ویئر نہیں پہنتی۔

جواب

بصورتِ مسئولہ مذکورہ لباس کے دو پہلو ہیں:

(1) رات کا لباس ہونا۔ (2) لباس کا غیر ساتر ہونا۔

دونوں اعتبار سے مسئلے کی تفصیل درج کی جارہی ہے:

(1)  واضح رہے کہ نماز در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کا ایک ذریعہ ہے اور ہم کلامی کے دوران مخاطب جس قدر عالی شان اور قابلِ قدر ہوتا ہے گفتگو اور بات چیت کے آداب بھی اُسی کے شایانِ شان اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

لہٰذا نماز کے دوران  چوں کہ مخاطب ذاتِ باری تعالیٰ ہے؛  لہٰذا مناجات کے آداب و احترام کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے؛ تاکہ باری تعالیٰ کی شان میں کسی قسم کی بے ادبی نہ ہوجائے۔

لہٰذا اگر رات کو سوتے وقت پہنا جانے والا لباس (نائٹی)  اس قسم کا ہے کہ  اسے شرفاء کی مہذب مجالس میں پہننا مروت کے خلاف سمجھاجاتا ہو اور اس قسم کا لباس عام حالات میں پہننا شرم و حیا  کے خلاف سمجھا جاتا ہو تو ایسا لباس پہن کر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا اور اس میں نماز ادا کرنا مکروہ   ہے۔

لیکن اگر نائٹی معمول کے ایسے کپڑے ہوں جو عموماً مجالس میں پہنے جاتے ہوں یا کسی کا معمول رات کے وقت لباس تبدیل کرنے کا نہ ہو،  یعنی دن میں استعمال ہونے والے کپڑوں میں ہی سونے کی عادت ہو اور  ان کپڑوں پر کوئی ناپاکی نہ ہو تو ان کپڑوں میں بلاکراہت نماز ادا ہوجائے گی۔

(2) تاہم جیسا کہ سائلہ نے سوال میں بتلایا کہ نائٹی ڈھیلی ڈھالی   ہے اور گھٹنوں سے کافی نیچے ہونے کے باوجود ٹخنوں تک جسم کو نہیں چھپاتی، تو  واضح رہے کہ عورت کے چہرے ،  دونوں ہتھیلیوں اور  قدموں کے علاوہ پورا جسم عورت کا ستر ہے، اس کو چھپانا نماز میں لازمی ہے، اگر نماز شروع کرنے سے پہلے سے ہی اعضاء مستورہ  میں سے کسی عضو   کا ایک چوتھائی کُھلا رہے تو نماز ابتدا ہی سے باطل سمجھی جائے گی۔ اور ایسی نماز کو اعضاء مستورہ ڈھانک کر دوبارہ پڑھانا لازم ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  نائٹی پہن کر نما زپڑھنے  کی صورت میں اگر  اعضاء مستورہ  میں  سے کوئی عضو  (مثلاً: پنڈلی یا ٹخنہ)  ایک  چوتھائی  کُھلا  رہتا ہو تو ایسی صورت میں نائٹی میں نماز سِرے سے ہی نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ستر العورة شرط لصحة الصلاة إذا قدر عليه كذا في محيط السرخسي. العورة للرجل من تحت السرة حتي تجاوز ركبتيه... بدن الحرة عورة إلا وجهها و كفيها و قدميها كذا في المتون... قليل الإنكشاف عفو؛ لأن فيه بلوی، و لا بلوی في الكثير، فلايجعل عفواً، الربع و ما فوقه كثير و ما دون الربع قليل، وهو الصحيح، هكذا في المحيط."

(الباب الثالث في شروط الصلاة، الفصل الأول في الطهارة و ستر العورة ، ١/ ٥٨، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"واعلم أن هذا التفصيل في الإنكشاف الحادث في أثناء الصلاة، أما المقارن لإبتدائها فإنه يمنع إنعقادها مطلقا اتفاقاً بعد أن يكون المكشوف ربع العضو."

( كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مطلب في النظر الی وجه الأمرد، ١/ ٤٠٨، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144205201479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں