بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نائٹ پینٹ میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

نائٹ پینٹ پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

  واضح رہے کہ نماز در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کا ایک ذریعہ ہے اور ہم کلامی کے دوران مخاطب جس قدر عالی شان اور قابلِ قدر ہوتا ہے گفتگو اور بات چیت کے آداب بھی اُسی کے شایانِ شان اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،لہٰذا نماز کے دوران  چوں کہ مخاطب ذاتِ باری تعالیٰ ہے،  لہٰذا مناجات کے آداب و احترام کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ باری تعالیٰ کی شان میں کسی قسم کی بے ادبی نہ ہوجائے۔

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں  اگر رات کو سوتے وقت پہنا جانے والا لباس (نائٹی)  اس قسم کا ہے کہ  اسے شرفاء کی مہذب مجالس میں پہننا مروت کے خلاف سمجھاجاتا ہو اور اس قسم کا لباس عام حالات میں پہننا شرم و حیا  کے خلاف سمجھا جاتا ہو تو ایسا لباس پہن کر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا اور اس میں نماز ادا کرنا مکروہ   ہے،لیکن اگر نائٹی معمول کے ایسے کپڑے ہوں جو عموماً مجالس میں پہنے جاتے ہوں یا کسی کا معمول رات کے وقت لباس تبدیل کرنے کا نہ ہو،  یعنی دن میں استعمال ہونے والے کپڑوں میں ہی سونے کی عادت ہو اور  ان کپڑوں پر کوئی ناپاکی نہ ہو تو ان کپڑوں میں بلاکراہت نماز ادا ہوجائے گی۔

مرقاۃ المصابیح میں ہے:

"وفي خبر البيهقي: «إذا صلى أحدكم فليلبس ثوبيه ‌فإن ‌الله ‌أحق ‌أن ‌يتزين ‌له، فإن لم يكن له ثوبان فليتزر إذا صلى»."

(كتاب الصلاة، باب الستر، ج:2، ص:639، ط: دار الفكر)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عمرو بن ميمون قال: « سألت سليمان بن يسار ، عن المني يصيب ثوب الرجل أيغسله أم يغسل الثوب؟ فقال: أخبرتني عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغسل المني، ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب، ‌وأنا ‌أنظر ‌إلى ‌أثر ‌الغسل ‌فيه .»."

(‌‌كتاب الطهارة، باب حكم المني، ج:1، ص:165، ط: دار الطباعة العامرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"تحت:(قوله وصلاته في ثياب بذلة) قال في البحر، وفسرها في شرح الوقاية بما يلبسه في بيته ولا يذهب به إلى الأكابر والظاهر أن الكراهة تنزيهية. اهـ."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:641، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں