بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نائیٹ ڈیوٹی کی وجہ سے تراویح کو ترک کرنا


سوال

میرے شوہر ملک سے باہر جاب کرتے ہیں،  ان  کی نائٹ شفٹ میں ڈیوٹی ہوتی ہے  ،اس دوران وہ تراویح  کی نماز ادانہیں کر پاتے ،بہت کوشش کے بعد بھی ،اور جاب چھوڑ بھی نہیں سکتے،ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ تراویح سنت موکده ہے، بلا عذر اس کو  چھوڑنے  کی عادت بنانے والا یا غیر اہم سمجھ  کر  چھوڑنے والا گناہ گار ہے، خلفاءِ راشدین،صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلفِ صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے؛ لہذا تراویح کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، تاہم شدید (شرعی) عذر جیسے سفرشرعی یا سخت بیماری وغیره کی وجہ سے اگر  تراویح چھوٹ جائے تو امید ہے کہ الله تعالٰی مؤاخذه نہیں فرمائیں گے ۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر پر لازم ہے نائٹ ڈیوٹی کے دوران فرض نماز کے ساتھ ساتھ تراویح بھی ادا کرے اور اس سلسلہ میں کمپنی کے ذمہ داروں سے بات کرے ، اور اگر وہ اجازت نہ دیں  تو اپنی ڈیوٹی کو دن کی شفٹ میں تبدیل کروالے اور بغیر کسی شرعی عذر کے تراویح کو ترک نہ کرے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(التراويح سنة) مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعاً.

 (قوله: التراويح) جمع ترويحة؛ سميت الأربع بها للاستراحة بعدها خزائن، وإنما أخرها عن النوافل لكثرة شعبها واختصاصها عنها بأدائها بجماعة وأحكام أخر، ولذا أفرد لها تأليفاً خاصاً بأحكامها الإمام حسام الدين، وتبعه العلامة قاسم.

(قوله: سنة مؤكدة) صححه في الهداية وغيرها، وهو المروي عن أبي حنيفة. وذكر في الاختيار أن أبا يوسف سأل أبا حنيفة عنها وما فعله عمر، فقال: التراويح سنة مؤكدة، ولم يتخرجه عمر من تلقاء نفسه، ولم يكن فيه مبتدعاً؛ ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم. ولاينافيه قول القدوري: إنها مستحبة كما فهمه في الهداية عنه، لأنه إنما قال: يستحب أن يجتمع الناس، وهو يدل على أن الاجتماع مستحب، وليس فيه دلالة على أن التراويح مستحبة، كذا في العناية. وفي شرح منية المصلي: وحكى غير واحد الإجماع على سنيتها، وتمامه في البحر.

(قوله: لمواظبة الخلفاء الراشدين) أي أكثرهم؛ لأن المواظبة عليها وقعت في أثناء خلافة عمر - رضي الله عنه -، ووافقه على ذلك عامة الصحابة ومن بعدهم إلى يومنا هذا بلا نكير، وكيف لا، وقد ثبت عنه صلى الله عليه وسلم: «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ»، كما رواه أبو داود، بحر (قوله: إجماعاً) راجع إلى قول المتن: سنة للرجال والنساء، وأشار إلى أنه لا اعتداد بقول الروافض: إنها سنة الرجال فقط، على ما في الدرر والكافي. أو أنها ليست بسنة أصلاً كما هو المشهور عنهم على ما في حاشية نوح، لأنهم أهل بدعة يتبعون أهواءهم لايعولون على كتاب ولا سنة، وينكرون الأحاديث الصحيحة".

(کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل، 2 /43، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں