بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفاس کے خون کا حکم


سوال

اگر نفاس کا خون چالیس دن سے پہلے رک جائے اور عورت نہالے تو پھر اگلے دن تھوڑا خون آجائےتو کیا وہ نفاس ہوگا یا مستحاضه هوگا؟اور حکم کیا هوگا اس وقت؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں نفاس کے ایام کے اندر جو ایک دو دن خون بند رہا یہ  ایام بھی جاری خون کی مانند شمار ہوں گے، یعنی ان ایام کو بھی نفاس میں شمار کیاجائے گا، اور ان ایام میں اگر روزے رکھے ہوں تو وہ درست نہیں ہوں گے، کیوں کہ مدتِ نفاس (چالیس دن) میں جاری خون کے درمیان آنے والا وقفہ کالعدم شمار ہوتا ہے۔

پھر اگر یہ خون چالیس دن کے اندر اندر رک جائے تو تمام ایام ہی(پورے چالیس دن)نفاس کے شمار ہوں گے۔ اور اگر چالیس دن سے زیادہ جاری رہا تو اگر اس عورت کے ہاں پہلی ولادت ہو تو چالیس دن نفاس اور باقی استحاضہ ہوگا۔ اور اگر پہلے سے کوئی عادت ہو تو ایامِ عادت کے مطابق آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، اور اس عادت سےزائد باقی ایام استحاضہ کے شمار ہوں گے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 299):

"لأن من أصل الإمام أن الدم إذا كان في الأربعين فالطهر المتخلل لايفصل طال أو قصر حتى لو رأت ساعةً دماً وأربعين إلا ساعتين طهراً ثم ساعةً دماً كان الأربعون كلها نفاساً، و عليه الفتوى".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں