اگر نفاس کا خون چالیس دن سے پہلے رک جائے اور عورت نہالے تو پھر اگلے دن تھوڑا خون آجائےتو کیا وہ نفاس ہوگا یا مستحاضه هوگا؟اور حکم کیا هوگا اس وقت؟
صورتِ مسئولہ میں نفاس کے ایام کے اندر جو ایک دو دن خون بند رہا یہ ایام بھی جاری خون کی مانند شمار ہوں گے، یعنی ان ایام کو بھی نفاس میں شمار کیاجائے گا، اور ان ایام میں اگر روزے رکھے ہوں تو وہ درست نہیں ہوں گے، کیوں کہ مدتِ نفاس (چالیس دن) میں جاری خون کے درمیان آنے والا وقفہ کالعدم شمار ہوتا ہے۔
پھر اگر یہ خون چالیس دن کے اندر اندر رک جائے تو تمام ایام ہی(پورے چالیس دن)نفاس کے شمار ہوں گے۔ اور اگر چالیس دن سے زیادہ جاری رہا تو اگر اس عورت کے ہاں پہلی ولادت ہو تو چالیس دن نفاس اور باقی استحاضہ ہوگا۔ اور اگر پہلے سے کوئی عادت ہو تو ایامِ عادت کے مطابق آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، اور اس عادت سےزائد باقی ایام استحاضہ کے شمار ہوں گے۔
حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 299):
"لأن من أصل الإمام أن الدم إذا كان في الأربعين فالطهر المتخلل لايفصل طال أو قصر حتى لو رأت ساعةً دماً وأربعين إلا ساعتين طهراً ثم ساعةً دماً كان الأربعون كلها نفاساً، و عليه الفتوى".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201469
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن