بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نفاس کی اکثر مدت کے بعد خون آنے کا حکم


سوال

اگر کسی عورت کو معمول یعنی چالیس دن سے زیادہ نفاس ہو، مسلسل اور ہلکے رنگ کا خون سا آتا ہو، توکیا اس حالت میں ہمبستری کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ چالیس دن نفاس کی اکثر مدت ہے،اور اکثر مدت کےبعد جو خون آتا ہے  وہ استحاضہ کے حکم میں ہوتاہے ،اور استحاضہ کی حالت نماز،روزہ اور ازدواجی تعلق سےمانع نہیں ہوتی،لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون کے نفاس کی پرانی عادت نہیں بلکہ پہلابچہ ہے تو چالیس دن نفاس میں شمار ہیں اور  نفاس کے چالیس دن گذرنے کے بعد جو خون آرہا ہے وہ استحاضہ ہے،اور استحاضہ کی حالت میں ازدواجی تعلق قائم کرنا شرعاً جائز ہے۔

الدر المختارمع رد المحتار مٰیں ہے:

"(وأكثره أربعون يوما) كذا رواه الترمذي وغيره ولأن أكثره أربعة أمثال أكثر الحيض.(والزائد) على أكثره (استحاضة) لو مبتدأة؛ أما المعتادة فترد لعادتها وكذا الحيض.

(کتاب الطہارۃ،باب الحیض،ج:1،ص:300،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(ودم استحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتا كاملا (لا يمنع صوما وصلاة) ولو نفلا (وجماعا) لحديث «توضئي وصلي وإن قطر الدم على الحصير»

مطلب في حكم وطء المستحاضة ومن بذكره نجاسة

(قوله وجماعا) ظاهره جوازه في حال سيلانه وإن لزم منه تلويث، وكذا هو ظاهر غيره من المتون والشروح وكذا قولهم: يجوز مباشرة الحائض فوق الإزار وإن لزم منه التلطخ بالدم، وتمامه في ط.

وأما ما في شرح المنية في الأنجاس من أن التلوث بالنجاسة مكروه فالظاهر حمله على ما إذا كان بلا عذر والوطء عذر، ألا ترى أنه يحل على القول بأن رطوبة الفرج نجسة مع أن فيه تلوثا بالنجاسة، فتخصيص الحل بوقت عدم السيلان يحتاج إلى نقل صريح ولم يوجد، بل قدمنا على شروح الهداية التصريح بأن حل الوطء بعد أكثر الحيض غير متوقف على الانقطاع فافهم."

(کتاب الطہارۃ،باب الحیض،مطلب فی حکم وط المستحاضۃ ومن بذکرہ نجاسۃ،ج:1،ص:298،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أقل النفاس ما يوجد ولو ساعة وعليه الفتوى وأكثره أربعون. كذا في السراجية.

وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس هكذا في المحيط."

(کتاب الطہارۃ،الفصل الثانی فی النفاس،ج:1،ص:37،ط:دار الفکر )

وفیہ ایضا:

"(ومنها) حرمة الجماع. هكذا في النهاية والكفاية وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج."

(کتاب الطہارۃ،الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ،ج:1،ص:39،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408101961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں