بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نفاس کا خون رکنے کے بعد دھبے شروع ہوگئے تو کیا حکم ہے؟


سوال

زچگی کے بعد خاتون نے پاکی کا اطمینان کرلیا اور اعمال شروع کر دیے ،لیکن اب دھبے نظرآتے ہیں کیا کریں ؟ مختلف صورتوں کے حوالےسے تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

بچہ پیدا ہونے کے بعد  جوخون آتا ہے اس کو نفاس کہتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ نفاس کی مدت چالیس دن ہیں اور کم کی کوئی حد نہیں ۔ اگر چالیس دن کے بعد بھی خون آۓتو وہ نفاس نہیں ہوگا ( بلکہ بیماری(استحاضہ )ہوگی )۔نفاس والی  عورت  دو قسم پر ہیں (1) مبتدءہ  یعنی جس عورت کی پہلی ولادت ہو  (2) معتادہ  یعنی  وہ عورت   جس کو پہلے ولادت اور نفاس  کا موقع ملا ہو۔

لہذا  اگر عورت کو زندگی میں پہلی مرتبہ نفاس آ گیا ہو ( یعنی مبتدہ ہو ) تو چالیس دن تک جتنی بھی مدت اس کوخون آتا ہے وہ نفاس والی  شمار ہوگی ، البتہ اکثر مدت یعنی چالیس دن رات گزرنے کے بعد مزید خون استحاضہ شمار ہوگا ،لہذا اب غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دے گی۔ اور اگر عورت کے یہاں اس سے پہلے بھی بچے کی ولادت  ہوئی ہو،(  یعنی معتادہ) ہو، تو اس کا نفاس عادت کے مطابق ہوگا، تاہم اگر ایام عادت پورے ہونے کے بعد بھی خون جاری رہے تو وہ چالیس دن پورے ہونے تک تو قف کرے گی ، اگر چالیس دن مکمل ہونے سے پہلے پہلے خون بند ہو گیا تو یہ پوراخون نفاس شمار ہوگا اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس کی عادت تبدیل ہوگئی ، چنانچہ ان ایام کی نماز میں واجب نہ ہوں گی اور اگر چالیس دن کے بعد بھی خون جاری رہے تو ایام عادت سے زیادہ تمام ایام کے خون کو استحاضہ قرار دیا جاۓگا اور ایام عادت کے بعد جتنی نماز یں اس نے چھوڑ دی ہیں ان سب کی فضالا زم ہوگی ، البتہ قضا کر نے کا گناہ نہ ہوگا ۔(مستفاد من عمدۃ الفقہ  و غسل کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا)

لہذا صورت مسئولہ میں اگر  خاتون   مبتدءۃ ہے   اور چالیس دن سے پہلے  خون بند ہوکر دوبارہ دھبے شروع  ہوگئے تو جب تک خالص سفیدی نہ ہو چالیس دن تک نفاس شمار  ہوگا  اور اگر عورت  معتادہ ہے اور عادت پر پاک ہونے کے بعد خون کے دھبے  شروع ہوئے ہوں تو اگر چالیس دن مکمل ہونے سے پہلے پہلے خون بند ہو گیا تو یہ پوراخون نفاس شمار ہوگا اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس کی عادت تبدیل ہوگئی  ، اور اگر  چالیس دن سے متجا وز ہوگیا تو جتنی عادت تھی وہ نفاس    شمار  ہوگا  اور اس سے زائد ایام استحاضہ کے ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والنفاس) لغة: ولادة المرأة. وشرعا (دم) فلو لم تره هل تكون نفساء؟ المعتمد نعم (ويخرج) من رحمها فلو ولدته من سرتها إن سال الدم من الرحم فنفساء وإلا فذات جرح وإن ثبت له أحكام الولد (عقب ولد) أو أكثره... (لا حد لأقله) .. (وأكثره أربعون يوما).. (والزائد) على أكثره (استحاضة) لو مبتدأة؛ أما المعتادة فترد لعادتها وكذا الحيض، فإن انقطع على أكثرهما أو قبله فالكل نفاس."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:300، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أقل النفاس ما يوجد ولو ساعة وعليه الفتوى وأكثره أربعون. كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس هكذا في المحيط.  الطهر المتخلل في الأربعين بين الدمين نفاس عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وإن كان خمسة عشر يوما فصاعدا وعليه الفتوى".

(كتاب الطهارة ، الباب السادس، الفصل الثاني في النفاس،ج:1، ص:37، ط:دار الفكر بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"فالطهر المتخلل فيه لا يفصل طال الطهر أو قصر حتى لو رأت ساعة دما وأربعين إلا ساعتين طهرا، ثم ساعة دما كان الأربعون كله نفاسا وعندهما إن لم يكن الطهر خمسة عشر يوما فكذلك، وإن كان خمسة عشر يوما فصاعدا يكون الأول نفاسا والثاني حيضا إن أمكن وإلا كان استحاضة."

وفیہ ایضا:

"(قوله كان الأربعون كله نفاسا) قال في النهر وعليه الفتوى، كذا في الخلاصة (قوله وتوضيحه بتمامه في السراج الوهاج) عبارته قوله لا حد له يعني في حق الصلاة والصوم."

(كتاب الطهارة،  باب الحيض ،ج:1، ص:230، ط:دار الكتاب الإسلامي)

المحیط البرھانی میں ہے:

"وإن ‌زاد ‌الدم على الأربعين فالزيادة على الأربعين استحاضة والأربعون نفاس في المبتدأة، وصاحبة العادة معروفها نفاس والزيادة عليها استحاضة...قال أبو حنيفة رحمه الله: الطهر المتخلل بين الأربعين في النفاس لا يعتبر فاصلاً بين الدمين، سواء كان أقل من خمسة عشر أو كان خمسة عشر أو أكثر منها."

(كتاب الطهارات، ‌‌الفصل التاسع في النفاس، ج:1، ص:264، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں