نفاس کے چالیس دن بعد بھی خون آ رہا ہے تو اس میں نماز کیسے ادا کریں؟ مطلب ہر نماز کے لیے وضو یا غسل کرنا ضروری ہے ؟رہنمائی فرمائیں۔
نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، اگر نفاس کا خون چالیس دن سے بڑھ جائے تو اگر یہ اس عورت کا پہلا بچہ ہے تو چالیس دن نفاس کا خون ہوگا، اور اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ (بیماری) کا کہلائے گا، چالیس دن پورے ہونے کے بعد غسل کرلے، اس کے بعد کے دنوں میں نماز وغیرہ پڑھنی ہوں گی، ہر نماز کے لیے وضو کرے گی اور اس وضو سے جتنی چاہے نمازیں ادا کرے خواہ فرض ہو یا نفل ،اسی طرح اس وقت کے اندر اسی وضو سے تلاوت،ذکر اذکار، طواف وغیرہ بھی کر سکتی ہے۔ ہاں اگر وضو اس خون والے عذر کے علاوہ کسی اور وجہ سے ٹوٹا ہوتو دوبارہ وضو کرنا ہوگا، بہرحال وقت ختم ہوجانے سے اس کا وضو خود بخود ختم سمجھا جائے گا، اگلی نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہو گا۔
اگر اس عورت کا پہلے سے کوئی بچہ ہے تو اس کی جتنے دن نفاس کے خون آنے کی عادت ہے اتنے دن کا خون نفاس شمار ہوگا اور باقی استحاضہ (بیماری) کا خون شمار ہوگا، اس صورت میں عادت سے زائد جن دنوں میں نماز نہیں پڑھی، اُس کی قضا کرنا بھی لازم ہو گا۔
الفتاوى الهندية (1/ 37):
" أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 298):
’’ (ودم استحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتًا كاملًا (لا يمنع صومًا وصلاةً) ولو نفلًا (وجماعًا) لحديث: «توضئي وصلي وإن قطر الدم على الحصير».
(قوله: لايمنع صومًا إلخ) أي ولا قراءة ومس مصحف ودخول مسجد وكذا لا تمنع عن الطواف إذا أمنت من اللوث قهستاني عن الخزانة ط. ... (قوله: لحديث توضئي) فإنه ثبت به حكم الصلاة عبارة، وحكم الصوم والجماع دلالة اهـ منح ودرر وإبدال الدلالة بالإشارة لا يخفى ما فيه على من له معرفة بالأصول فافهم.‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200465
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن