بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفاس کا خون ایک دن بند ہونے کے بعد دوبارہ جاری ہوجائے


سوال

اگر ہمبستری کے ایک دن بعد دوبارہ نفاس آ جائے تو کیا کیا جائے؟اگر ایک عورت کے نفاس کا خون رک گیا اور اس پر ایک نماز کا وقت گزر گیا، اس نے غسل کر کے نماز ادا کی اور ہمبستری کر لی،  اس کے ٹھیک ایک دن بعد دوبارہ خون نظر آیا، تو اب خاوند کےلیے کیا حکم ہے؟ نیز یہ عورت مبتدأ ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر نفاس کا یہ خون چالیس  دن کے اندر  اندر ایک  دن بند ہوکر دوبارہ جاری ہوگیا ہے تو  یہ ایک دن  بھی نفاس میں شمار ہوگا،شوہر نے خون رک جانے کے بعد جو ہمبستری کی ہے،  اس کی وجہ سے دونوں پر کوئی گناہ نہیں، لیکن اب چونکہ  دوبارہ خون جاری ہوگیا ہے اس لئے   جتنےدن بھی  خون جاری رہے گا شوہر کےلئے ہمبستری  کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ   اگر چالیس دن سے پہلے خون رک جاتا ہے تو عورت کے غسل کرنے کے بعد یا ایک فرض نماز کا وقت گزرجانے کے بعد  شوہر کے لیے ہم بستری کرنا جائز ہوگا۔اور اگر چالیس دن پر خون رک جائے  تو ہمبستری کے لئے غسل یا نماز کے وقت گزرنے کا انتظار  کرنا ضروری نہیں، البتہ  مستحب یہ ہے کہ غسل کے بعد ہمبستری کی جائے، اور اگر خون چالیس دن سے  بڑھ جائےتو چونکہ  پہلی ولادت ہے اس لئے چالیس دن نفاس اور باقی استحاضہ کے دن شمار ہوں گے، اور استحاضہ کے دنوں میں نماز ، روزہ اور صحبت کی ممانعت نہیں، عورت نماز بھی پڑےگی ، روزے بھی رکھے گی، اور  شوہر کے ساتھ ہم بستری کرنا  بھی جائز ہوگا۔

"أقل النفاس ما يوجد ولو ساعة وعليه الفتوى وأكثره أربعون. كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس هكذا في المحيط.  الطهر المتخلل في الأربعين بين الدمين نفاس عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وإن كان خمسة عشر يوما فصاعدا وعليه الفتوى".

(الفتاوى الهندية: كتاب الطهارة ، الباب السادس، الفصل الثاني في النفاس (1/ 37)، ط. رشيديه)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وتوطأ بلا غسل بتصرم لأكثره) أي: ويحل وطء الحائض إذا انقطع دمها العشرة بمجرد الانقطاع من غير توقف على اغتسالها، وقال في المغرب: تصرم القتال انقطع وسكن، (قوله: ولأقله لا حتى تغتسل أو يمضي عليها أدنى وقت صلاة)،اعلم أن هذه المسألة على ثلاثة أوجه؛ لأن الدم إما ينقطع لتمام العشرة أو دونها لتمام العادة أو دونهما، ففيما إذا انقطع لتمام العشرة يحل وطؤها بمجرد الانقطاع ويستحب له أن لا يطأها حتى تغتسل، وفيما إذا انقطع لما دون العشرة دون عادتها لا يقربها وإن اغتسلت ما لم تمض عادتها، وفيما إذا انقطع للأقل لتمام عادتها إن اغتسلت أو مضى عليها وقت صلاة حل وإلا لا وكذا النفاس إذا انقطع لما دون الأربعين لتمام عادتها، فإن اغتسلت أو مضى الوقت حل وإلا لا، كذا في المحيط" .

(البحر الرائق: كتاب الطهارة،  باب الحيض (1/ 213)، ط.  دار الكتاب الإسلامي، الطبعة الثانية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں