بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نیکر پہننے کا حکم


سوال

گرمیوں میں مرد حضرات ایسا مختصر سا نیکر پہنتے ہیں، جو  گھٹنوں سے اوپر ہوتا ہے اور یہ آہستہ آہستہ مزید اوپر جا رہا ہے،  آیا گرمیوں میں ایسے مختصر نیکر پہننے کی کوئی گنجائش ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  مرد کا ستر،  ناف  سے لے کر گھٹنے تک ہے، گھٹنے ستر میں شامل ہیں،اس حصے کا چھپانافرض ہے۔

لہٰذا گرمی کی وجہ سے اس قدر مختصر نیکر پہننے کی گنجائش نہیں ، جس میں  گھٹنے یا گھٹنوں سے اوپر کا حصہ ظاہر ہو۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن جرهد: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أما ‌علمت ‌أن ‌الفخذ ‌عورة» . رواه الترمذي وأبو داود"

 (‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات، ‌‌الفصل الثاني،  رقم الحدیث: 15931، ج: 2، ص:  933، ط: المكتب الإسلامي)

"ترجمہ: حضرت جرہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ   جنابِ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا:کیاتجھےمعلوم نہیں کہ ران ستر ہے؟"

(مظاہرِ حق، جلد: سوم، صفحہ:285، ط: مکتبۃ العلم)

الترغيب والترهيب  میں ہے:

"(ولا يجوز للغاسل أن ينظر إلى عورة الميت لقول النبي صلى الله عليه وسلم لعلي -رضي الله عنه- ‌لا ‌تنظر ‌إلى ‌فخذ ‌حي ولا ميت)."

(‌‌باب في الترغيب في غسل الجنابة وغسل الحيض وغسل الميت، ج: 3، ص: 158، ط: دار الحديث - القاهرة)

"ترجمہ: غسل دینے  والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ میت کے ستر کو دیکھے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضورﷺ نے ارشادفرمایاکہ : زندہ اور مردہ کی ران کی طرف مت دیکھو۔"

"مجمع الانہر" میں ہے:

''( و ) من ( الرجل إلى ما ينظر الرجل من الرجل ) أي إلى ما سوى العورة ( إن أمنت الشهوة ) وذلك؛ لأن ما ليس بعورة لا يختلف فيه النساء والرجال، فكان لها أن تنظر منه ما ليس بعورة، وإن كانت في قلبها شهوة أو في أكبر رأيها أنها تشتهي أو شكت في ذلك يستحب لها أن تغض بصرها، ولو كان الرجل هو الناظر إلى ما يجوز له النظر منها كالوجه والكف لا ينظر إليه حتماً مع الخوف''.

‌‌(كتاب الكراهية، فصل في بيان أحكام النظر ونحوه، ج: 2، ص: 538، 539، ط: المطبعة العامرة)

وفیه أیضاً:

"وينظر الرجل من الرجل إلى ما سوى العورة وقد بينت في الصلاة أن العورة ما بين السرة إلى الركبة والسرة ليستب عورة."

‌‌(كتاب الكراهية، فصل في بيان أحكام النظر ونحوه، ج: 2، ص: 538، 539، ط: المطبعة العامرة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411102209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں