ڈیڑھ سال پہلے، میں نے دار الافتاء بنوری ٹاؤن فتوی نمبر 144310100309 سے طلاق کے معاملے پر تحریری فتویٰ حاصل کیا تھا، جس کے مطابق طلاق واقع نہیں ہوئی تھی۔ تاہم، میری زوجہ اس فتویٰ کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے اور کہتی ہے کہ طلاق ہو چکی ہے۔ میرے اور میری زوجہ کے درمیان ایک موبائل فون کی شرط کا مسئلہ، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ میرے موبائل کو استعمال کرے گی تو طلاق ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ، میرے اور میری زوجہ کے درمیان ہمارے بیٹے کا بھی مسئلہ ہے، جس کی عمر تقریباً سات سال ہے۔ گزشتہ 20 ماہ سے میں نے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا ہے، اور نہ ہی میں اس کے خرچے کی ادائیگی کر سکا ہوں، کیونکہ میری زوجہ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ میں اب شرعی رہنمائی چاہتا ہوں کہ اس صورتحال میں میں کیا کر سکتا ہوں؟اور طلاق دینے کا طریقہ کیا ہوگا؟ کیوں ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل نے موبائل کے استعمال کرنے پر طلاق کو معلق نہیں کیا تھا، تو شرعاً بیوی کے موبائل استعمال کرنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، جیسا کہ منسلکہ فیصلہ میں بھی یہی حکم مذکورہ ہے، سائل کو چاہیے کہ میاں بیوی کے اس اختلاف کو حل کرنے کے لیے دونوں خاندان کے معزز اور سمجھدار بزرگ افراد سے رابطہ کرے اور مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے لیکن اس کے باجود نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو سائل اپنی بیوی کو اس کی پاکی کے ایام میں صرف ایک طلاق رجعی دے کر فارغ کردے، جس کے بعد اگر سائل نے بیوی کی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) کے اندر رجوع کرلیا تو نکاح قائم رہے گا وگرنہ عدت کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا اور عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وقولهم الأصل فيه الحظر، معناه أن الشارع ترك هذا الأصل فأباحه،بل يستحب لو مؤذية أو تاركة صلاة غاية،
وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر".
(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن) بالنسبة إلى البعض الآخر".
(کتاب الطلاق، ج:3، ص:231، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101184
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن