بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نیاز کے کھانے کاحکم


سوال

كيا نياز كا كھانا جائز هے؟

جواب

’’ نیاز‘‘  کا ایک معنی عرف میں  یہ بھی ہے کہ لوگ بزرگوں کے ایصالِ ثواب کے لیے یا اپنے فوت شدہ اقارب کے لیے کھانا وغیرہ بنواکراس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اسے  تقسیم کرتے ہیں تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ نیاز  ان ہی بزرگوں کے نام کی ہو، یعنی اس  سے ان بزرگوں کا تقرب مقصود ہو تو  یہ حرام ہے، اس کا کھانا بھی حرام ہے؛  کیوں کہ یہ نذر لغیر اللہ ہے۔ اور اگر اللہ کے نام پر دی جانے والی نیاز سے مقصود کسی میت کو فقط ایصالِ ثواب کرنا ہے،میت کا تقرب مقصود نہیں ہے،تو ایسی نیاز کا کھانا  فقراء کے لیے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی ٰ شامی  میں  ہے:

"(‌ذبح ‌لقدوم ‌الأمير) ونحوه كواحد من العظماء (يحرم) لأنه أهل به لغير الله."

(ج:6، ص: 309، ط: سعید)

حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ  ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

جواب:نفسِ ذبح یعنی جان قربان کرنے سے مقصود تقرب الی غیراللہ ہو، یعنی کسی بزرگ ولی وغیرہ کی طرف تقرب حاصل کرنےاور اس کی تعظیم کرنے اور اس کی خوشی چاہنےکے لیے ذبح کیاجائےتو یہ تو حرام ہے،اور ذبیحہ بھی( مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللهِۚ )میں داخل ہوکر حرام ہوجاتا ہے،خواہ اپنے گھر ذبح کیاجائے یا قبرستان میں یاکسی اور جگہ،

دوسری صورت یہ کہ ذبح سے مراد تقرب الی اللہ ہو،یعنی ذبح کرنے والا خاص خدا کی رضامندی اور تعظیم و عبادت کے خیال سے ذبح کرے اور پھر اس فعل پر اس کو جو ثواب ملے تو کسی دوسرے کو بخش دے، اس صورت میں کوئی نقصان اور الزام ذابح اور ذبیحہ میں نہیں ہے، یعنی ذابح کا یہ فعل حلال اور ذبیحہ جائز ہے، ،مگر اس کے لیے کسی مکان اور جگہ کی تخصیص نہیں اور نہ قبرستان میں لے جانے کی ضرورت ہے۔"

(کفایت المفتی ، المجلد الاول،ص:249،ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں