بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن یا حدیث کی روشنی میں نیاز کرنے کی کیا دلیل ہے؟


سوال

نیاز کرنا کیسا ہے اسلام میں؟ کوئی حدیث یا قرآن کی روشنی میں کوئی دلائل ہیں تو بتائیں!

جواب

واضح رہے کہ آج کل نیاز کے نام سے جو رسمیں عوام میں رائج ہیں ان کا قرآن و سنت، آثارِ صحابہ و تابعین سے کوئی ثبوت نہیں ہے، البتہ ایصالِ ثواب بذات خود ایک جائز اور مستحسن عمل ہے اور اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ جتنی توفیق ہو نقد روپیہ، کھانا، کپڑا وغیرہ صدقہ کر کے اس کا ثواب میت کو پہنچا دیا جائے، خواہ کسی عزیز رشتہ دار کی میت کو ثواب پہنچانا مقصد ہو یا کسی بزرگ ہستی کے لیے ایصالِ ثواب کی نیت ہو اس کام کے لیے ایام اور تاریخوں کو متعین کرنا، دعوتیں اور اجتماعات کرنا بے اصل ہے،ان کو ترک کرنا واجب ہے۔

الدر المختار ميں هے:

"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك ولا سيما في هذه الأعصار وقد بسطه العلامة قاسم في شرح درر البحار".

وفي الرد:

"(قوله تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.

ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار، ولا يجوز أن يصرف ذلك لغني ولا لشريف منصب أو ذي نسب أو علم، ما لم يكن فقيرا ولم يثبت في الشرع جواز الصرف للأغنياء للإجماع على حرمة النذر للمخلوق...

(قوله ما لم يقصدوا إلخ) أي بأن تكون صيغة النذر لله تعالى للتقرب إليه ويكون ذكر الشيخ مرادا به فقراؤه كما مر، ولا يخفى أن له الصرف إلى غيرهم كما مر سابقا ولا بد أن يكون المنذور مما يصح به النذر كالصدقة بالدراهم ونحوها".

(‌‌كتاب الصوم، مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه، قبيل ‌‌باب الاعتكاف، 2/ 439، ط: سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

"ایصال ثواب جائز و مستحسن ہے۔  اس کو کوئی ناجائز اور بدعت نہیں کہتا۔ لیکن ایصال ثواب کے لئے شریعت مقدسہ نے تعیین تاریخ و یوم اور تخصیص  اشیاء نہیں کی ہے ۔ اس لئے مانعین کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز  کو خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے معین  ومخصوص نہیں کیا اسے ہم بھی معین و مخصوص نہ کریں ۔ گیارھویں بارھویں سوم دہم چہلم وغیرہ لوگوں نے مقرر کر لیے ہیں ۔ ورنہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ان ایام کی تعیین و تخصیص منقول اور مروی نہیں ہے ۔ نہ ان بابرکت زمانوں میں یہ نام تھے ۔ اور نہ ان زمانوں میں ایصال ثواب کا کوئی اہتمام کیا جاتا تھا"۔ 

(کتاب العقائد، آٹھواں باب: اختلافی مسائل، فصلِ نہم: نذر و نیاز اور فاتحہ، 1/222، ط: دار الاشاعت)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"اس مقصد کے لیے چندہ مانگنا اور سوال کرنا غلط طریقہ ہے ، حق تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے، حسبِ توفیق غرباء کو اللہ لیے دے کر ثواب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح اقدس کو پہنچا دینا درست ہے، قرآن کریم جس قدر پڑھ کر ثواب پہنچایا جائے وہ بھی درست ہے نوافل پڑھ کر نیز دیگر حسنات کر کے بھی ثواب پہنچایا جا سکتا ہے، جیسا کہ ہدایہ وغیرہ میں ہے۔ کھانے کی اشیا سامنے رکھ کر مخصوص آیات پڑھ کر مروجہ فاتحہ ثابت نہیں اور اس کو ضروری سمجھنا اعتقادی مفسدہ ہے۔ غیر اللہ کے نام پردینا ہرگز درست نہیں"۔

(کتاب الایمان والعقائد، ما یتعلق بالاشراک باللہ تعالیٰ وصفاتہ،21/ 42، زیرِ نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں