بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ان جی اوز ادارے کے آفیسر کے لیے سیلاب متاثرین کو ملنے والا راشن تقسیم کرنا


سوال

ہمارے علاقہ میں (ان جی اوز) ادارے کا دفتر ہے، اس کا ہیڈآفیسر سیلاب متاثرین کا راشن بیچ رہا ہے، تو کیا اس آفیسر سے راشن کا سامان خریدنا جائز ہے؟ آفیسر کہتا ہے کہ شہر میں سیلاب متاثرین کم تھے اس وجہ سے بچا ہوا سامان ضائع ہونے کی وجہ سے بیچنا چاہتاہوں۔

جواب

واضح رہے کہ خرید و فروخت صحیح ہونے کے لیے فروخت کی جانے والی اشیاء پر ملکیتِ تامہ ہونا یا مالک کی جانب سے اجازت کا ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں (این جی اوز) کے ہیڈآفیسرکے لیے سیلاب متاثرین کے نام پر  ملنے والا راشن فروخت کرناکسی صورت میں جائز نہیں ہےبلکہ اُسےچاہیے کہ مذکورہ راشن جن کی طرف سے ملا ہو ان کو واپس کریں اور اگر واپس کرنا ممکن نہ ہو تودوسرا علاقہ جہاں سیلاب متاثرین موجود ہوں وہاں مستحقین پر تقسیم کردے ،ورنہ اگر اپنی زندگی میں ادا نہ کیے تو کل قیامت والے دن دینے ہوں گے ،وہاں بہت مشکل ہے،وہاں نیکیوں سے محرومی ہوگی۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي حميد الساعدي رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه و ذالك لما حرم الله مال المسلم على المسلم."

(مسند أحمد ابن حنبل ،ج: 39، ص: 18، رقم الحديث: 23605 ،ط: مؤسسة الرسالة)

صحیح بخاری  میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: آية ‌المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."

(كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، ج: 1، ص: 16، ط: دار طوق النجاة بيروت)

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاۓخیانت کرے۔"

(نصر الباری، باب علامات المنافق، ج: 1، ص: 285، ط: مکتبۃ الشیخ کراچی)

حدیث پاک میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "أتدرون ‌ما ‌المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له، ولا متاع فقال: إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار ."

(صحيح مسلم ،كتاب البرو الصلة و الآداب ،باب تحريم الظلم، ج: 8، ص: 18،رقم الحديث: 2581، ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھاکہ تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور مال واسبا ب نہ ہوں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں،لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد  دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس۔“

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ص27،ط؛دار الجیل)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن ‌سبيل ‌الكسب ‌الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر و الإباحة، ج: 6، ص: 385، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(قوله ‌الحرام ‌ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 5، ص: 98، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں