بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

NFT کے ذریعے رقم کمانے کا حکم


سوال

این ایف ٹی یعنی نان فنجیبل ٹوکن (NFT: Non-fungible token) کیا ہے؟ این ایف ٹی کسی بھی چیز کی تصویر فروخت کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے، یہاں تک کہ دادا، دادی لوگ کھیت سے پیسے کمانے کے لئے تصویر فروخت کررہے ہیں، مجھے اس کے بارے میں بتائیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں NFT: Non-Fungible Token ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں ڈیجیٹل ایسٹس (Digital Assets) یعنی تصاویر، موسیقی / میوزک، ویڈیوز اور دیگر اسی نوع سے تعلق رکھنے والی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اس نوع کی خرید و فروخت میں کئی قسم کے مفاسد ہیں، پہلی خرابی یہ ہے کہ اس میں جاندار اور غیر جاندار دونوں قسم کی تصاویر کی خرید و فروخت ہوتی ہیں اور قرآن و حدیث کی رو سے جاندار کی تصویر کی خرید و فروخت تو دور کی بات جاندار کی تصویر کھینچنا اور بنانا ہی حرام اور ناجائز ہے اور آخرت میں سخت ترین عذاب کا باعث ہے تو اس سے بچنا لازم ہے، نیز اس زمانے میں لوگ سیلفی کے نام سے تصاویر کھینچتے ہیں اور اس کی قباحت کا اندازہ بھی نہیں کر پاتے اور پھر ان کو اس پلیٹ فارم پر فروخت بھی کرتے ہیں اور رقم بنام  نفع بھی حاصل کرتے ہیں جو کہ شرعا ناجائز اور حرام ہے۔

اور دوسری خرابی یہ ہے کہ اگر غیر جاندار کی تصویر کھینچ کر اس کو اس پلیٹ فارم پر فروخت کریں یا پھر اسی پلیٹ فارم سے کوئی غیر جاندار کی تصویر کو خریدیں تو اس صورت میں بھی یہ معاملہ درست نہیں، اس لئے کہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ NFT کے اس مخفف میں (T) سے مراد ٹوکن ہے اور ٹوکن کا مطلب ملٹی لیول مارکیٹنگ ہے، یعنی جس نے پہلی دفعہ کوئی چیز فروخت کی اب وہ چیز اس پلیٹ فارم سے جتنی دفعہ کسی خریدار کو فروخت ہوگی تو سب کو اس کا فیصد کے اعتبار سے نفع ملے گا، یہ بھی شرعا ناجائز ہے۔

اور تیسری بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس میں خرید و فروخت ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے ہوتی ہے، اور ڈیجیٹل کرنسی کے اندر شرعا حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط نہیں پائے جاتے بلکہ یہ محض ایک فرضی کرنسی ہے جو کہ عدد کی شکل میں اکاؤنٹ میں آجاتے ہیں اور ان عدد کا خارجی اعتبار سے کوئی وجود نہیں ہوتا، جبکہ مال یا کرنسی کے لیے عین کا ہونا ضروری ہے جو کہ یہاں نہیں ہے، نیز  اس ضمن میں ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ اس پلیٹ فارم سے جب کوئی چیز خریدی جاتی ہے تو خریدنے والا اس کا مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ چیز اس کے اکاؤنٹ میں صرف رجسٹرڈ کردی جاتی ہے قبضہ نہیں ہوتا، اور قبضہ سے قبل منقولی چیز  کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، لہٰذا ان مذکورہ مفاسد کی بنا پر NFT کے پلیٹ فارم سے کسی بھی قسم کا نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾﴿البقرة: 275﴾

مسند امام احمد میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله حرم على أمتي ‌الخمر، والميسر، والمزر، والقنين، والكوبة."

(‌‌مسند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: 11/ 124، ط: مؤسسة الرسالة)

معالم التنزیل میں ہے:

"(ولا تاكلوا اموالكم بینكم بالباطل) ای بالحرام یعنی بالربا والقمار والغضب والسرقة."

(سورة النساء:29، (2/ 1119)، ط:دار طیبة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن ‌القمار ‌من ‌القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر والاباحة، باب الاستبراء، فصل فی البیع: 6/ 403، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة."

(‌‌كتاب البيوع، باب الصرف: 5/ 257، ط: سعید)

تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"آج کل عالمی مارکیٹ میں ایک کوئن رائج ہےجسے ’’بٹ کوئن‘‘ یا ’’ڈیجیٹل کرنسی‘‘ کہتے ہیں، یہ ایک محض فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہٰذا موجودہ زمانہ میں’’ کوئن‘‘ یا ’’ڈیجیٹل کرنسی‘‘ کی خریدوفروخت کے نام سے انٹر نیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکہ ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لئے بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی  کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔"

(عنوان: بٹ کوئن: 2/ 92، ط: بیت العمار کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں