بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر بچے کی پیدائش کے بعد خون آنا بندہوجاے توکیا مباشرت کی جا سکتی ہے؟


سوال

اگر بچے کی پیدیش کے بعد خون آنا بندہوجاے توکیا مباشرت کی جا سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد عورت کو جو خون آتا ہے اسے ’’نفاس‘‘ کہتے ہیں، نفاس کی اکثر مدت  40 دن ہے، لیکن نفاس  40 دن سے کم بھی ہو سکتا ہے، نفاس کے خون کے دوران عورت سے ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے، خون بند ہو جانے کے بعد جب عورت غسل کرلے یا اس پر ایک نماز کا وقت گزر جائے تو عورت سے ہم بستری کی جا سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں!  اگر کسی عورت کو  چالیس (40) دن پورے ہونے سے پہلے خون آنا بند ہوجائے تو  اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

1۔اگر وہ عورت معتادہ ہو (یعنی اس سے پہلے بھی اس کو نفاس آیا ہو اور اس کی نفاس کی عادت معلوم ہو ) اور نفاس کا خون اس کی عادت کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی بند ہوجائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ فی الحال اس عورت کا اپنے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے، البتہ یہ عورت احتیاطاً  روزہ بھی رکھے گی(اگر رمضان کا مہینہ ہے) اور نماز کو بھی نماز کے آخری وقت تک (وجوباً) مؤخر کر کے پڑھے گی، لیکن اتنی تاخیر بھی نہ کرے کہ مکروہ وقت داخل ہوجائے۔

2۔اگر وہ عورت معتادہ ہو اور نفاس کا خون اس کی عادت کی مدت مکمل ہونے کے بعد بند ہوجائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ غسل  کرنے یا ایک نماز کا وقت گزرنے سےپہلے اس عورت کا اپنے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے، البتہ غسل کرنے کے بعد یا ایک نماز کا وقت گزرجانے کے بعد اس عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز ہوگا، لیکن مستحب یہ ہے کہ غسل کیے بغیر شوہر سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرے۔ اسی طرح یہ عورت   روزہ بھی رکھے گی اور نماز کو بھی آخری وقت تک (استحباباً) مؤخر کر کے پڑھے گی، لیکن اتنی تاخیر بھی نہ کرے کہ مکروہ وقت داخل ہوجائے۔

3۔اگر وہ عورت مبتدأۃ ہو (یعنی  اس عورت کو پہلی بار نفاس آیا ہو) تواس کا حکم بھی دوسری صورت والا ہے۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوباً بل ندباً. (وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطاً؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه (أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب (والتحريمة) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها.

 (قوله: إذا انقطع حيضها لأكثره) مثله النفاس، وحل الوطء بعد الأكثر ليس بمتوقف على انقطاع الدم صرح به في العناية والنهاية وغيرهما، وإنما ذكره ليبني عليه ما بعده قال ط: ويؤخذ منه جواز الوطء حال نزول دم الاستحاضة اهـ وقدمنا عن البحر أنه يجوز الاستمتاع بما بين السرة والركبة بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دماً. اهـ وهذا في الحائض، فيدل على جواز وطء المستحاضة وإن تلطخ دماً وسيأتي ما يؤيده فافهم (قوله: وجوباً) منصوب بعامل محذوف أي بلا غسل يجب وجوباً، ومثله قوله: بل ندباً (قوله: بل ندباً) ؛ لأن قراءة {حتى يطهرن} [البقرة: 222] بالتشديد تقتضي حرمة الوطء إلى غاية الاغتسال فحملناها على ما إذا كان أيامها أقل من عشرة دفعاً للتعارض بين القراءتين، فظاهره يورث شبهة، فلهذا لايستحب، نوح عن الكافي.

(قوله: لدون أقله) أي أقل الحيض وهو ثلاثة أيام (قوله: في آخر الوقت) أي وجوباً، بركوي، والمراد آخر الوقت المستحب دون المكروه كما هو ظاهر سياق كلام الدرر وصدر الشريعة. قال ط: وأهمل الشارح حكم الجماع، ويظهر عدم حله بدليل مسألة الانقطاع على الأقل وهو دون العادة.

قلت: قد يفرق بين تحقق الحيض وعدمه، وانظر ما نذكره قبيل قوله: والنفاس لأم التوأمين (قوله: وإن ولأقله) اللام بمعنى بعد ط (قوله: لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب، بحر (قوله: وتغتسل وتصلي) أي في آخر الوقت المستحب، وتأخيره إليه واجب هنا أما في صورة الانقطاع لتمام العادة فإنه مستحب، كما في النهاية والبدائع وغيرهما (قوله: احتياطاً) علة للأفعال الثلاثة (قوله: وإن لعادتها) وكذا لو كانت مبتدأةً، درر (قوله: حل في الحال) ؛ لأنه لا اغتسال عليها لعدم الخطاب، فإن أسلمت بعد الانقطاع لاتتغير الأحكام، وتمامه في البحر (قوله: حتى تغتسل) قد علمت أنه يستحب لها تأخيره إلى آخر الوقت المستحب دون المكروه.

قال في المسبوط: نص عليه محمد في الأصل. قال: إذا انقطع في وقت العشاء تؤخر إلى وقت يمكنها أن تغتسل فيه وتصلي قبل انتصاف الليل، وما بعد نصف الليل مكروه، بحر."

(كتاب الطهارة،باب الحيض،ج:1،ص:294،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144404101214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں