بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نیوتہ (نیندرا) کی رسم کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں شادی کی ایک  رسم ہے جس کا نام ( نیندرا)ہے،   جس کو اردو میں نیوتہ  کہتے ہیں ، ہوتا  اس طرح ہے  کہ کسی کے ہاں شادی ہوتی ہے تو وہاں پر شادی پر آئے مہمان کچھ رقم دیتے ہیں، جس کو باقاعدہ نوٹ کیا جاتا ہے، چند افراد بیٹھتے ہیں اور برادری کے حساب سے پیسے لکھتے ہیں، پھر جب ان کے ہاں شادی ہوتی ہے تو جو لینے والے ہوتے ہیں پھر جو دینے والے ہیں، ان كے  ہاں اگر شادی ہو تو وہاں پر جا کر کاپی وغیرہ دیکھ کے اتنے ہی پیسے یا پھر جو  بھی وقت کے حساب سے کمی زیادتی کے ساتھ دیتے رہتے ہیں، اور یہ سب کچھ لازم اور ضروری سمجھ کے کیا جاتا ہے، نہ کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور اگر جا کر اس کی شادی میں لیے گئے پیسے لوٹائے نہ جائیں تو بسا اوقات پیغام پہنچایا جاتا ہے ، کہ ہمارے پیسے کیوں نہیں لوٹائے گئے؟اور یہ رسمِ بد دن بدن اضافہ پکڑتی جا رہی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ رسم شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں ؟اور اس طرح رقم کی لکھائی وغیرہ کرنا اور واپس لوٹانا ان کو لازم اور ضروری سمجھنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  مذکورہ تفصیل جو سائل نے ذکر کی ہے ،اس کے مطابق  مذکورہ لین دین کا معاملہ شرعاً قرض کے حکم میں ہے ،جس کا حکم یہ ہے کہ جتنا قرض لیا جائے اتنا ہی لو ٹا نا لازم و ضروری ہے ،   نیز بلاضرورت قرض لینے سے   باز رہنا چاہیے ،اور اس رسم کو ختم کرنا چاہیے ۔

لیکن جہاں پر  دئیے ہوئے پیسوں کو مذکورہ طریقے پر زیادہ کر کے لوٹایا جائے ،تو یہ صورت  سود  ہونے کی وجہ سے   جائز ہی نہیں ہے،اس سے بہر صورت اجتناب لازم وضروری ہے ۔

مشکاۃ شریف میں ہے :

"وعن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «يغفر ‌للشهيد كل ذنب إلا الدين» . رواه مسلم."

وفي شرحه :

"وهو كما روى مسلم: «يغفر ‌للشهيد كل شيء إلا الدين» ، وقال الطيبي: جعل الدين من جنس الذنوب تهويلا لأمره۔۔۔(إلا أن يكون عليه دين) لما تقرر أن حقوق العباد مما لا مسامحة فيه، وأما قول ابن حجر: الدين ولو لله - تعالى - كزكاة وكفارة فلا يمحى بذلك لأن فيه شائبة قوية للآدمي لأنه الذي يصرف إليه فلم يمحه ذلك فمدفوع بأنه إن كان المراد بالدين دين العباد فلا يصح إطلاقه عليه."

(كتاب فضائل القرآن،ج:4،ص:1483 ،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: لا جبر على الصلات".

(كتاب الهبة، فصل فى مسائل متفرقة، ج:5، ص:710، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطًا اهـ.

قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه فرضًا حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه".

(كتاب الهبة، ج:5، ص:696، ط:ايج ايم سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل،ج:4،ص:320،ط: سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے :

اگر یہ بطریق اعانت کے ہو اور ریاکاری نام و نمود وغیرہ کچھ نہ ہو تو شرعا درست بلکہ مستحسن ہے، مگر طریقہ مروجہ کی حیثیت سے بجز رسم  و رواج کے کچھ نہیں، اور بسا اوقات برادری کے زور یا رسوائی کے خوف سے دیا جاتا ہے بلکہ اگر پاس نہ ہو تو قرض  یا سودی لے کر دیا جاتا ہے اس لیے ناجائز ہے اور اگر بطور قرض دیا جاتا ہے جیسا کہ بعض جگہ رواج ہے،تو اس میں بھی مفاسد ہیں ۔فقط واللہ سبحانہ  تعالیٰ اعلم "

(کتاب النکاح،باب مایتعلق بالرسوم عندالزفاف،ج:11،ص:242،ط:ادارۃ الفارق)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144507100030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں