بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نیوتہ کی رسم کا حکم


سوال

ہمارے یہاں شادیوں میں تحفے کے طور پر پیسے دینے کا رواج ہے، جو کہ لکھ کر نوٹ کیے جاتے ہیں؛ تاکہ جب کبھی ہم تحفہ دیں تو پہلے یہ دیکھ کر کہ اس نے کتنے دیے تھے اُس کو پیسے دیے جائیں، کیا ایسا کرنا  سود کی کوئی شکل تو نہیں؟

جواب

شادیوں یا ولیمے کے موقع پر مذکورہ طریقہ کا لین دین "نیوتہ" کہلاتا ہے، جو شادی بیاہ کے موقع کی ایک قبیح رسم اور شرعی اعتبار سے ناجائز ہے، قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے:

﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّه...الآية﴾  [الروم: 39]

یعنی جو مال اس نیت سے دیا جائے کہ اس کے بدلے میں زیادہ ملے گا تو اللہ کے ہاں اس کی بڑھو تری نہیں ہوتی۔

مفسرین نے "نیوتہ" کے لین دین کو بھی اس آیت کا مصداق ٹھہراتے ہوئے ناجائز قرار دیا ہے۔

البتہ کسی قسم کے بدلے کی نیت کے بغیر محض خوشی کے موقع کی مناسبت سے رقم ہدیہ کر دینا جائز ہے، لہٰذا شادی و بیاہ کے مواقع پر اس رسم کو ختم کرکے عوض کی نیت کے بغیر تحفہ دینا چاہیے۔ اور جس برادری میں "نیوتہ" کی رسم ہے، وہاں اگر شادی یا ولیمہ کے موقع پر کچھ دیا گیا ہے تو اس کی حیثیت قرض کی ہے اور قرض پر اضافہ لینا بوجہ سود کے ناجائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں