بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نیوز چینل کی ویڈیو رپورٹ بنانا


سوال

میں وائس آف امریکہ (جو کہ امریکی حکومت کا ایک نیوز چینل ہے) میں بطور ِرپورٹر کام کرتا ہوں، میں پاکستان میں ہونے والے واقعات ، خبروں اور دوسرے مسائل پر ویڈیو انٹرویو لیتا ہوں، جن میں مرد و خواتین کے انٹرویو شامل ہوتے ہیں، پھر ان انٹرویو کو ایڈٹ کرکے ایک رپورٹ کی شکل میں امریکہ اپنے آفس بھیجتا ہوں ، جہاں سے وہ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر نشر ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس طرح کام کرنا حلال ہے اور کیا میری کمائی حلال ہے؟ اور اس کمائی سے بنائے گئے  گھر کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ویڈیوز میں چوں کہ جان دار کی تصاویر ہوتی ہیں لہذا اس طرح کی ویڈیوز بنانا  اور پھر ان ویڈیوز کو  ایڈٹ کرکے ٹی وی اور انٹرنیٹ پر نشر ہونے کے لیے  رپورٹ کی شکل میں  بنانا  جائز نہیں ہے،  اور اس کے ذریعے ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں ہوگی، اس آمدنی کا حکم یہ ہے کہ اس کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے، اس سے مکان خریدنا جائز نہیں تھا، تاہم اگر  مکان خرید لیا  تو اتنی حلال رقم صدقہ كردے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

(حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"اكتسب حرامًا و اشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئًا، قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا، و هذا قياس، و قال أبو بكر: كلاهما سواء و لايطيب له، و كذا لو اشترى و لم يقل بهذه الدراهم و أعطى من الدراهم دفع ماله مضاربة لرجل جاهل جاز أخذ ربحه ما لم يعلم أنه اكتسب الحرام.

(قوله: اكتسب حرامًا إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ."

(5/ 235، کتاب البیوع، باب المتفرقات، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144401101762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں