بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نیٹی جیٹی کے سمندر میں ہندوؤں کی جانب سے ڈالے گئے ناریل استعمال کرنا


سوال

  نیٹی جیٹی پل کے نیچے سمندر کے پانی سے ناریل نکال کر ہم کھاتے ہیں، یہ وہ ناریل ہوتے ہیں جو کہ  ہندوؤں کے مندر سے پھینکے جاتے ہیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسے ناریل جو  ہم کھاتے ہیں وہ کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

ہر وہ چیز جو غیر اللہ کے نام دی جائے، اس کا کھانا حرام ہوتا ہے،  نیز نیٹی جیٹی پل کے سمندری حصہ میں پائے جانے والے ناریل عموما ہندوؤں کی جانب سے بتوں کے نام  ڈالے گئے ہوتے ہیں، لہذا ایسے ناریل کھانا، اور اس کا پانی پینا بنص قرآنی حرام ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

"{ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ}." ( البقرة: ١٧٣)

اس آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے، مثلاً مٹھائی، کھانا وغیرہ جن کو غیراللہ کے نام پر نذر (منت) کے طور سے ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں، حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراکِ علت  یعنی تقرب الی غیراللہ کی وجہ سے "ما اہل لغیر اللہ" کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے، اور اس کے کھانے پینے دوسروں کو کھلانے اور بیچنے خریدنے سب کو حرام کہا ہے" ۔

(معارف القرآن :١ / ٤٢٤، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی) 

امداد الفتاوی  میں ہے: 

"سوال: موسمِ گرما میں اکثر اہل ہنود جگہ جگہ پانی پلایا کرتے ہیں، اس کے متعلق ایسا سنا ہے کہ وہ پانی دیوتاؤں کے نام پر پلاتے ہیں، تو اس پانی کا مسلمان کو پینا جائز ہے نہیں؟ 

الجواب: اگر محقق ہوجاوے کہ دیوتاؤں کے نام کا ہے تو   "ما اهل لغیر اللّٰه"  کے حکم میں ہے، لہذا ناجائز ہے۔"

  ( کتاب الحظر والإباحۃ، کھانے پینے کی حلال وحرام، مباح و مکروہ چیزوں کا بیان، ٤ / ٩٧، ط:ادارۃ المعارف کراچی) 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"والنذر للمخلوق لايجوز؛ لأنه عبادة والعبادة لا تكون للمخلوق."

(کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ٢ / ٣٢١،ط: دار الکتاب الاسلامی بیروت) 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)   میں ہے:

"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام. 

وفی الحاشیة : مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله: تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله: باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك، ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر ... الخ"

  (كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم و ما لا يفسده، قبيل باب الاعتكاف، ٢ / ٤٣٩،  ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404102135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں