بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نصف النہار شرعی اور نصف النہار عرفی کے درمیانی وقفے میں اور غروبِ آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

نصف النہار شرعی کے بعد سے لے کر نصف النہار عرفی(حقیقی) سے کتنے منٹ پہلے تک قضا  نماز پڑھنا جائز ہے؟

2: غروب آفتاب سے کتنے منٹ پہلے تک قضا  نماز پڑھنا جائز ہے؟

جواب

1:  نصف النہار شرعی جو صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک کے مجموعی وقت کا آدھا ہوتا ہےجیسے  کراچی میں آج  (2 اگست 2021) صبح صادق 4:37 پر ہوا ہےاور غروب آفتاب 7:16پر ہوا ، یوں صبح صادق سے غروب آفتاب تک کل مجموعی  وقت 14:39(چودہ گھنٹے اور انتالیس)منٹ بنتے  ہیں، اور  اس کا آدھا تقریبًا  7:19.5(سات گھنٹے اور ساڑھے انیس منٹ ) بنتے  ہیں اور یہ وقت  11:56.30بجے (گیارہ بج کر ساڑھے چھپن منٹ)  کا وقت ہوتا ہے۔

اور  نصف النہار عرفی جو طلوع آفتاب سےسورج غروب ہونے تک کے مجموعی وقت کا آدھا ہوتا ہے،جیسے آج  طلوع آفتاب  6:00 بجے پر ہوا ہے اور غروب آفتاب 7:16(سات بج کر سولہ  منٹ)  پر ہوا ،یوں طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کل مجموعی وقت 13:16(تیرہ گھنٹے اور سولہ)منٹ بنتے  ہیں، اور اس کا آدھا 6:38(چھ گھنٹے اور اڑتیس)منٹ بنتے ہیں اور یہ تقریبًا 12:38بجے کا وقت ہوتا ہے اور اس  میں ہر چیز کا سایۂ اصلی اس کے بالکل نیچے اور برابر میں ہوتا ہے، جس میں ایک انچ نہ مشرق کی طرف ہوتا ہے اور نہ مغرب کی طرف۔

گویاکہ نصف النہار کا شرعی کا وقت 11:56,30(گیارہ بج کر ساڑھے چھپن) منٹ سے شروع ہوتا ہے اور زوال کے وقت سے پہلے تک رہتا ہے، اور اس وقت میں کسی بھی طرح کی نماز پڑھنا جائز ہے، اور زوال کا وقت 12:38 (بارہ بج کر اڑتیس) منٹ پر ہوتا ہے،  یہی وہ وقت ہے جس میں کسی بھی طرح کی نماز پڑھنا جائزنہیں ہے،    لیکن وقت زوال کی مقدار اس قدر نہیں ہوتی کہ اس میں کوئی نماز ادا کی جاسکے؛ بلکہ یہ رائج الوقت گھڑی کے اعتبار سے ایک دو منٹ بھی مشکل سے ہوتی ہے؛ لیکن احتیاطاً پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد میں کل تقریباً دس منٹ تک نماز پڑھنا ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔اور آج کی تاریخ(یعنی بروز ِ پیر،دو اگست،2021،پاکستان) کے حساب سےگھڑیوں میں زوال کا وقت  اور ممنوع وقت 12:33تا 12:43 بجے تک ہے  اور اس میں ہر طرح کی نماز پڑھنا ممنوع ہے۔

2: عصر کے بعد سورج زرد پڑجانے کے بعد سے  لے کر غروب ہوجانے تک کسی بھی طرح کی نماز پڑھنا ممنوع ہے، سوائے اس دن کے عصر کے نماز کے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"المراد بالنهار الشرعي، وهو من أول طلوع الصبح إلی غروب الشمس، وعلی هذا یکون نصف النهار قبل الزوال بزمان یعتد به … وبأن المراد انتصاف النهار الشرعي، وهو الضحوۃ الکبری إلی الزوال."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:371، ط:ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے :

"فإذا وقف لایزداد و لاینتقص، فهو ساعة  الزوال واذا أخذ الظل فی الزیادۃ فالشمس قد زالت."

(كتاب الصلوة، ج1، ص:122، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"و لایخفی أن زوال الشمس إنما هو عقیب انتصاف النهار بلا فصل، وفي هذا القدر من الزمان لایمکن أداء صلوۃ فیه."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:371، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية )  میں ہے:

"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة و لا صلاة الجنازة و لا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع و عند الانتصاف إلى أن تزول و عند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب، هكذا في فتاوى قاضي خان. قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل: ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع،كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة و سجدة التلاوة في وقت مباح و أخرتا إلى هذا الوقت؛ فإنه لايجوز قطعًا، أما لو وجبتا في هذا الوقت و أديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت، كذا في السراج الوهاج و هكذا في الكافي و التبيين. لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها و في صلاة الجنازة التأخير مكروه، هكذا في التبيين. و لايجوز فيها قضاء الفرائض و الواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر، هكذا في المستصفى والكافي."

(کتاب الصلوۃ، الباب الاول فی مواقیت الصلوۃ، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، ج:1، ص:52، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں