بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نصابِ زکوۃ کا بیان


سوال

 میرے والد صاحب ایک ادارے میں ملازم تھے ،  ان کی وفات کے بعد ہمیں کچھ رقم ملی،  وہ رقم کافی ساری تو گھر کی تعمیر میں خرچ ہو گئی اور کچھ ابھی باقی ہے ،  جب وہ رقم ملی تھی ، ہر اہل خانہ کو الگ الگ چیک ملا تھا اور اس کے علاوہ کچھ رقم ایک ہی چیک میں میری والدہ کے نام ملی تھی۔ مزید یہ کہ ہمارے پاس ساڑھے پانچ تولے سونا ہے،  جو ابھی میری والدہ کی ملکیت میں ہے،  مگر انہوں نے اس بات کا ارادہ کر رکھا ہے کہ وہ یہ سونا اپنی تین بیٹیوں پر تقسیم کریں گی۔ ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ اب ہمیں کس طرح اور کس حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟ راہ نمائی فرمائیں۔جزاکم اللہ خیراً

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اور اس کے بھائی بہنوں میں سے ہر ایک کی ملکیت میں نصاب کے بقدر ہو (یعنی ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر نقدی یا مالِ تجارت ہو)تو ہر ایک پر سال گزرنے پر اڑھائی فیصد زکوۃ لازم ہوگی،اگر تقسیم کے بعد ہر ایک کے حصہ میں اس قدر مال نہ آئے  تو کسی پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔

سائل کی والدہ کے پاس موجود سونا چوں کہ ابھی تک انہوں نے بیٹیوں کو نہیں دیا ہے، لہذا وہ سائلہ کی والدہ ہی کی  ملکیت ہے، لہذا  سائل کی والدہ کے پاس  مذکورہ ساڑھے پانچ تولہ سونا کے ساتھ کچھ چاندی ،یا نقدی ہو  تو  اس صورت میں سال گزرنے پر اڑھائی فیصد زکوۃ لازم ہوگی،جیسا کہ سوال میں والدہ کو اپنے شوہر کی میراث میں سے رقم ملنے کا ذکر ہے ، لہذا اس میں سے تھوڑی رقم بھی موجود ہو تو نصاب چاندی کا شمار ہوگا اور والدہ پر زکوۃ لازم ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد۔"

(كتاب الزكوة:2 /261،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحا۔"

(كتاب الزكوة:2 /267،ط:سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100624

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں