بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامہ کی شرائط میں کمی بیشی کرنا


سوال

نكاح نام ميں جو شرائط ذكر كی جاتی هيں اگر وه فريقين كے درميان نكاح كي مجلس ميں نہ ذكر كی جائيں اور بعد ميں دلهن والے وه شرائط لكهوا ديں تو كيا وہ شرائط دولها پر لازم هوں جائيں گی؟ جبکہ اسكو بتايا بهي نهيں گيا تها اور جب نكاح نامه بعد ميں ديكها تو دولها نے صاف انكار كرديا كه اسكو ميرے علم ميں نہيں لايا گيا ، كيا دولها پر يه شرائط لازم ہوں گی ؟

جواب

نكاح نامہ میں جو شرائط ذکر ہیں ان کو غورسے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے پھر ان کے ہونے یا نہ ہونے پر اتفاق کرکے نکاح نامہ پر دستخط کرنے چاہئیں جب ایک بار نکاح نامہ پر فریقین کے دستخط ہوجائیں اور ایجاب وقبول ہوجائے تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے اب اگر شرائط کا اضافہ کرنا ہو یا ختم کرنا ہو یا تبدیل کرنا ہو تو پھر دوبارہ فریقین کا اتفاق ضروری ہے اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو نئی شرائط کا اضافہ نہیں کیاجاسکتا اور نکاح سابقہ شرائط پر ہی برقرار رہے گا ۔صورت مسئولہ میں اگرنکاح نامہ پر موجود شرائط کو کاٹ کر ایجاب وقبول کیا گیا تھا اور نکاح نامہ پر دستخط ہوئے تھے (جیسا کہ عام طور سے ہوتاہے)تواب دلھن والے شرائط کا اضافہ وغیرہ دولھا کی رضامندی کے بغیر نہیں کرسکتےاور نہ ہی نکاح پر کوئی اثر پڑے گا اورنہ ہی شرائط کا پورا کرنا لازم ہوگااور اگر نکاح نامہ پرموجودشرائط کے ساتھ ایجاب وقبول ہوااور دولھا اور دلھن نے دستخط کیے تو ایسی صورت میں دولھا کا شرائط سے انکار کرنا درست نہیں ہوگا ۔عام طور سے نکاح نامہ کی دستخط شدہ ایک کاپی دولھا کے پاس ہوتی ہے نکاح نامہ کی کاپی ملاحظہ کرکے صورت حال مزید واضح ہوجائے گی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں